World. Visits

Flag Counter

Saturday 16 January 2016

Sipahi maqbool Hussain zinda baad









17ستمبر 2005 ء کو واہگہ بارڈر کے راستے بھارتی حکام نے قیدیوں کا ایک گروپ پاکستانی حکام کے حوالے کیا-اس گروپ میں مختلف نوعیت کے قیدی تھے-ان کے ہاتھوں میں گٹھڑیوںکی شکل میں کچھ سامان تھا جو شاید ان کے کپڑے وغیرہ تھے-لیکن اس گروپ میں ساٹھ پینسٹھ سالہ ایک ایسا پاکستانی بھی شامل تھا-جس کے ہاتھوں میں کوئی گٹھڑی نہ تھی-
جسم پر ہڈیوں اور ان ہڈیوں کے ساتھ چمٹی ہوئی اس کی کھال کے علاوہ گوشت کا کوئی نام نہیں تھا-اور جسم اس طرح مڑا ہوا تھا جیسے پتنگ کی اوپر والی کان مڑی ہوتی ہے-خودرو جھاڑیوں کی طرح سرکے بے ترتیب بال جنہیں دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ طویل عرصے تک ان بالوں نے تیل یا کنگھی کی شکل تک نہیں دیکھی ہو گی-اور دکھ کی بات کہ پاکستان داخل ہونے والے اس قیدی کی زبان بھی کٹی ہوئی تھی لیکن ان سارے مصائب کے باوجود اس قیدی میں ایک چیز بڑی مختلف تھی اور وہ تھیں اس کی آنکھیں جن میں ایک عجیب سی چمک تھی-پاکستانی حکام کی طرف سے ابتدائی کارروائی کے بعد ان سارے قیدیوں کو فارغ کردیا گیا-سارے قیدی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے-لیکن یہ بوڑھا قیدی اپنے گھر جانے کی بجائے ایک عجیب منزل کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا-کانپتے اور ناتواں ہاتھوں سے وہ ٹوٹے ہوئے الفاظ لکھ لکھ کر اپنی منزل کا پتہ پوچھتا رہا اور ہر کوئی اسے ایک غریب سائل سمجھ کر اس کی رہنمائی کرتا رہا-اور یوں 2005 ء میں یہ بوڑھا شخص پاکستان آرمی کی آزاد کشمیر رجمنٹ تک پہنچ گیا وہاں پہنچ کر اس نے ایک عجیب دعوی- کردیا-اس دعوے کے پیش نظر اس شخص کو رجمنٹ کمانڈر کے سامنے پیش کردیا-کمانڈر کے سامنے پیش ہوتے ہی نہ جانے اس بوڑھے ناتواں شخص میں کہاں سے اتنی طاقت آگئی کہ اس نے ایک نوجوان فوجی کی طرح کمانڈر کو سلیوٹ کیا اور ایک کاغذ پر ٹوٹے ہوئے الفاظ میں لکھا
”سپاہی مقبول حسین نمبر 335139 ڈیوٹی پر آگیا ہے اور اپنے کمانڈر کے حکم کا منتظر ہے“کمانڈر کو کٹی ہوئی زبان کے اس لاغر ، ناتواں اور بدحواس شخص کے اس دعوے نے چکرا کے رکھ دیا-کمانڈر کبھی اس تحریر کو دیکھتا اور کبھی اس بوڑھے شخص کو جس نے ابھی کچھ دیر پہلے ایک نوجوان فوجی کی طرح بھرپور سلیوٹ کیا تھا-کمانڈر کے حکم پر قیدی کے لکھے ہوئے نام اور نمبر کی مدد سے جب فوجی ریکارڈ کی پرانی فائلوں کی گرد جھاڑی گئی اور اس شخص کے رشتہ داروں کو ڈھونڈ کے لایا گیا تو ایک دل ہلا دینے والی داستان سامنے آئی -اور یہ داستان جاننے کے بعد اب پھولوں، فیتوں اور سٹارز والے اس لاغر شخص کو سلیوٹ مار رہے تھے-اس شخص کا نام سپاہی مقبول حسین تھا-65 ء کی جنگ میں سپاہی مقبول حسین کیپٹن شیر کی قیادت میں دشمن کے علاقے میں اسلحہ کے ایک ڈپو کو تباہ کرکے واپس آرہا تھا کہ دشمن سے جھڑپ ہو گئی-سپاہی مقبول حسین جو اپنی پشت پر وائرلیس سیٹ اٹھائے اپنے افسران کے لئے پیغام رسانی کے فرائض کے ساتھ ہاتھ میں اٹھائی گن سے دشمن کا مقابلہ بھی کر رہا تھا مقابلے میں زخمی ہو گیا-سپاہی اسے اٹھا کر واپس لانے لگے تو سپاہی مقبول حسین نے انکار کرتے ہوئے کہاکہ بجائے میں زخمی حالت میں آپ کا بوجھ بنوں، میں دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے آپ کیلئے محفوظ راستہ مہیا کرتا ہوں-ساتھیوں کا اصرار دیکھ کر مقبول حسین نے ایک چال چلی اور خود کو چھوٹی کھائی میں گرا کر اپنے ساتھیوں کی نظروں سے اوجھل کرلیا- دوست تلاش کے بعد واپس لوٹ گئے تو اس نے ایک مرتبہ پھر دشمن کے فوجیوں کو آڑے ہاتھوں لیا- اسی دوران دشمن کے ایک گولے نے سپاہی مقبول حسین کو شدید زخمی کردیا- وہ بے ہوش ہو کر گرپڑا اور دشمن نے اسے گرفتار کرلیا- جنگ کے بادل چھٹے تو دونوں ملکوں کے درمیان قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ ہوا تو بھارت نے کہیں بھی سپاہی مقبول حسین کا ذکرنہ کیا-اس لئے ہماری فوج نے بھی سپاہی مقبول حسین کو شہید تصورکرلیا-بہادر شہیدوں کی بنائی گئی ایک یادگار پر اس کا نام بھی کندہ کردیا گیا-ادھربھارتی فوج خوبصورت اور کڑیل جسم کے مالک سپاہی مقبول حسین کی زبان کھلوانے کیلئے اس پر ظلم کے پہاڑ توڑنے لگی-اسے 4X4فٹ کے ایک پنجرا نما کوٹھڑی میں قید کردیا گیا- جہاں وہ نہ بیٹھ سکتا تھا نہ لیٹ سکتا تھا-دشمن انسان سوز مظالم کے باوجود اس سے کچھ اگلوانہ سکا تھا-سپاہی مقبول حسین کی بہادری اور ثابت قدمی نے بھارتی فوجی افسران کو پاگل کردیا-جب انہوں نے دیکھا کہ مقبول حسین کوئی راز نہیں بتاتا تو وہ اپنی تسکین کیلئے مقبول حسین کو تشدد کا نشانہ بنا کر کہتے ”کہو پاکستان مردہ باد“ اور سپاہی مقبول حسین اپنی ساری توانائی اکٹھی کرکے نعرہ مارتا پاکستان زندہ باد، جو بھارتی فوجیوں کو جھلا کے رکھ دیتا-وہ چلانے لگتے اور سپاہی مقبول کو پاگل پاگل کہنا شروع کردیتے اور کہتے کہ یہ پاکستانی فوجی پاگل اپنی جان کا دشمن ہے اورسپاہی مقبول حسین کہتا ہاں میں پاگل ہوں---ہاں میں پاگل ہوں--- اپنے ملک کے ایک ایک ایک ذرّے کے لئے---ہاں میں پاگل ہوں اپنے ملک کے کونے کونے کے دفاع کیلئے--- ہاں میں پاگل ہوں اپنے ملک کی عزت و وقار کے لئے--- سپاہی مقبول حسین کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ دشمنوں کے ذہنوں پر ہتھوڑوں کی طرح لگتے- آخر انہوں نے اس زبان سے بدلہ لینے کا فیصلہ کرلیا انہوں نے سپاہی مقبول حسین کی زبان کاٹ دی اور اسے پھر 4x4 کی اندھیری کوٹھڑی میں ڈال کر مقفل کردیا-سپاہی مقبول حسین نے 1965ء سے لیکر 2005ء تک اپنی زندگی کے بہترین چالیس سال اس کوٹھڑی میں گزار دیئے اب وہ کٹی زبان سے پاکستان زندہ آباد کا نعرہ تو نہیں لگا سکتا تھا لیکن اپنے جسم پر لباس کے نام پر پہنے چیتھڑوں کی مدد سے 4x4 فٹ کوٹھڑی کی دیوار کے ایک حصے کو صاف کرتا اور ا پنے جسم سے رستے ہوئے خون کی مدد سے وہاں پاکستان زندہ باد لکھ دیتا-یوں سپاہی مقبول حسین اپنی زندگی کے بہترین دن اپنے وطن کی محبت کے پاگل پن میں گزارتا رہا- آئیں ہم مل کر آج ایسے سارے پاگلوں کو سلیوٹ کرتے ہیں.
جسم پر ہڈیوں اور ان ہڈیوں کے ساتھ چمٹی ہوئی اس کی کھال کے علاوہ گوشت کا کوئی نام نہیں تھا-اور جسم اس طرح مڑا ہوا تھا جیسے پتنگ کی اوپر والی کان مڑی ہوتی ہے-خودرو جھاڑیوں کی طرح سرکے بے ترتیب بال جنہیں دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ طویل عرصے تک ان بالوں نے تیل یا کنگھی کی شکل تک نہیں دیکھی ہو گی-اور دکھ کی بات کہ پاکستان داخل ہونے والے اس قیدی کی زبان بھی کٹی ہوئی تھی لیکن ان سارے مصائب کے باوجود اس قیدی میں ایک چیز بڑی مختلف تھی اور وہ تھیں اس کی آنکھیں جن میں ایک عجیب سی چمک تھی-پاکستانی حکام کی طرف سے ابتدائی کارروائی کے بعد ان سارے قیدیوں کو فارغ کردیا گیا-سارے قیدی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے-لیکن یہ بوڑھا قیدی اپنے گھر جانے کی بجائے ایک عجیب منزل کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا-کانپتے اور ناتواں ہاتھوں سے وہ ٹوٹے ہوئے الفاظ لکھ لکھ کر اپنی منزل کا پتہ پوچھتا رہا اور ہر کوئی اسے ایک غریب سائل سمجھ کر اس کی رہنمائی کرتا رہا-اور یوں 2005 ء میں یہ بوڑھا شخص پاکستان آرمی کی آزاد کشمیر رجمنٹ تک پہنچ گیا وہاں پہنچ کر اس نے ایک عجیب دعوی- کردیا-اس دعوے کے پیش نظر اس شخص کو رجمنٹ کمانڈر کے سامنے پیش کردیا-کمانڈر کے سامنے پیش ہوتے ہی نہ جانے اس بوڑھے ناتواں شخص میں کہاں سے اتنی طاقت آگئی کہ اس نے ایک نوجوان فوجی کی طرح کمانڈر کو سلیوٹ کیا اور ایک کاغذ پر ٹوٹے ہوئے الفاظ میں لکھا”سپاہی مقبول حسین نمبر 335139 ڈیوٹی پر آگیا ہے اور اپنے کمانڈر کے حکم کا منتظر ہے“کمانڈر کو کٹی ہوئی زبان کے اس لاغر ، ناتواں اور بدحواس شخص کے اس دعوے نے چکرا کے رکھ دیا-کمانڈر کبھی اس تحریر کو دیکھتا اور کبھی اس بوڑھے شخص کو جس نے ابھی کچھ دیر پہلے ایک نوجوان فوجی کی طرح بھرپور سلیوٹ کیا تھا-کمانڈر کے حکم پر قیدی کے لکھے ہوئے نام اور نمبر کی مدد سے جب فوجی ریکارڈ کی پرانی فائلوں کی گرد جھاڑی گئی اور اس شخص کے رشتہ داروں کو ڈھونڈ کے لایا گیا تو ایک دل ہلا دینے والی داستان سامنے آئی -اور یہ داستان جاننے کے بعد اب پھولوں، فیتوں اور سٹارز والے اس لاغر شخص کو سلیوٹ مار رہے تھے-اس شخص کا نام سپاہی مقبول حسین تھا-65 ء کی جنگ میں سپاہی مقبول حسین کیپٹن شیر کی قیادت میں دشمن کے علاقے میں اسلحہ کے ایک ڈپو کو تباہ کرکے واپس آرہا تھا کہ دشمن سے جھڑپ ہو گئی-سپاہی مقبول حسین جو اپنی پشت پر وائرلیس سیٹ اٹھائے اپنے افسران کے لئے پیغام رسانی کے فرائض کے ساتھ ہاتھ میں اٹھائی گن سے دشمن کا مقابلہ بھی کر رہا تھا مقابلے میں زخمی ہو گیا-سپاہی اسے اٹھا کر واپس لانے لگے تو سپاہی مقبول حسین نے انکار کرتے ہوئے کہاکہ بجائے میں زخمی حالت میں آپ کا بوجھ بنوں، میں دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے آپ کیلئے محفوظ راستہ مہیا کرتا ہوں-ساتھیوں کا اصرار دیکھ کر مقبول حسین نے ایک چال چلی اور خود کو چھوٹی کھائی میں گرا کر اپنے ساتھیوں کی نظروں سے اوجھل کرلیا- دوست تلاش کے بعد واپس لوٹ گئے تو اس نے ایک مرتبہ پھر دشمن کے فوجیوں کو آڑے ہاتھوں لیا- اسی دوران دشمن کے ایک گولے نے سپاہی مقبول حسین کو شدید زخمی کردیا- وہ بے ہوش ہو کر گرپڑا اور دشمن نے اسے گرفتار کرلیا- جنگ کے بادل چھٹے تو دونوں ملکوں کے درمیان قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ ہوا تو بھارت نے کہیں بھی سپاہی مقبول حسین کا ذکرنہ کیا-اس لئے ہماری فوج نے بھی سپاہی مقبول حسین کو شہید تصورکرلیا-بہادر شہیدوں کی بنائی گئی ایک یادگار پر اس کا نام بھی کندہ کردیا گیا-ادھربھارتی فوج خوبصورت اور کڑیل جسم کے مالک سپاہی مقبول حسین کی زبان کھلوانے کیلئے اس پر ظلم کے پہاڑ توڑنے لگی-اسے 4X4فٹ کے ایک پنجرا نما کوٹھڑی میں قید کردیا گیا- جہاں وہ نہ بیٹھ سکتا تھا نہ لیٹ سکتا تھا-دشمن انسان سوز مظالم کے باوجود اس سے کچھ اگلوانہ سکا تھا-سپاہی مقبول حسین کی بہادری اور ثابت قدمی نے بھارتی فوجی افسران کو پاگل کردیا-جب انہوں نے دیکھا کہ مقبول حسین کوئی راز نہیں بتاتا تو وہ اپنی تسکین کیلئے مقبول حسین کو تشدد کا نشانہ بنا کر کہتے ”کہو پاکستان مردہ باد“ اور سپاہی مقبول حسین اپنی ساری توانائی اکٹھی کرکے نعرہ مارتا پاکستان زندہ باد، جو بھارتی فوجیوں کو جھلا کے رکھ دیتا-وہ چلانے لگتے اور سپاہی مقبول کو پاگل پاگل کہنا شروع کردیتے اور کہتے کہ یہ پاکستانی فوجی پاگل اپنی جان کا دشمن ہے اورسپاہی مقبول حسین کہتا ہاں میں پاگل ہوں---ہاں میں پاگل ہوں--- اپنے ملک کے ایک ایک ایک ذرّے کے لئے---ہاں میں پاگل ہوں اپنے ملک کے کونے کونے کے دفاع کیلئے--- ہاں میں پاگل ہوں اپنے ملک کی عزت و وقار کے لئے--- سپاہی مقبول حسین کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ دشمنوں کے ذہنوں پر ہتھوڑوں کی طرح لگتے- آخر انہوں نے اس زبان سے بدلہ لینے کا فیصلہ کرلیا انہوں نے سپاہی مقبول حسین کی زبان کاٹ دی اور اسے پھر 4x4 کی اندھیری کوٹھڑی میں ڈال کر مقفل کردیا-سپاہی مقبول حسین نے 1965ء سے لیکر 2005ء تک اپنی زندگی کے بہترین چالیس سال اس کوٹھڑی میں گزار دیئے اب وہ کٹی زبان سے پاکستان زندہ آباد کا نعرہ تو نہیں لگا سکتا تھا لیکن اپنے جسم پر لباس کے نام پر پہنے چیتھڑوں کی مدد سے 4x4 فٹ کوٹھڑی کی دیوار کے ایک حصے کو صاف کرتا اور ا پنے جسم سے رستے ہوئے خون کی مدد سے وہاں پاکستان زندہ باد لکھ دیتا-یوں سپاہی مقبول حسین اپنی زندگی کے بہترین دن اپنے وطن کی محبت کے پاگل پن میں گزارتا رہا- آئیں ہم مل کر آج ایسے سارے پاگلوں کو سلیوٹ کرتے ہیں.

Monday 11 January 2016

سلطان کا انصاف

ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺕ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﻏﺰﻧﻮﯼ ﮐﻮ ﮐﺎﻓﯽ ﮐﻮﺷﺸﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ
ﺟﺐ ﻧﯿﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻏﻼﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﻟﮕﺘﺎ ہے کہ ﮐﺴﯽ مظلوم ﭘﺮ ﺁﺝ ﮐﻮﺋﯽ ﻇﻠﻢ ہوا ہے۔ ﺗﻢ ﻟﻮﮒ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻞ ﺟﺎﺅ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩﯼ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﺍُﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﻟﮯ ﺁﺅ۔
ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺳﺐ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﮐﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ : " ﺳﻠﻄﺎﻥ، ہمیں ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻼ, ﺁﭖ ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﺳﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ۔ "
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﮐﻮ ﺟﺐ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﯿﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮐﭙﮍﮮ ﺑﺪﻝ ﮐﺮ ﺧﻮﺩ ﻣﺤﻞ ﺳﮯ ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮑﻼ۔ ﻣﺤﻞ ﮐﮯ ﭘﭽﮭﻮﺍﮌﮮ ﻣﯿﮟ ﺣﺮﻡ ﺳﺮﺍ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍُنہیں ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﺳﻨﺎﺋﯽ ﺩﯼ : " ﺍﮮ اللہ ! ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﺍﭘﻨﮯ
ﻣﺼﺎﺣﺒﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺤﻞ ﻣﯿﮟ ﻋﯿﺶ ﻭ ﻋﺸﺮﺕ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺍﺭ ﺭہا ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﻞ ﮐﮯ ﻋﻘﺐ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ یہ ﻇﻠﻢ ﺗﻮﮌﺍ ﺟﺎ ﺭہا ہے۔ "
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : "ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮐﺮرہے ہو؟ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻤﻮﺩ ہوﮞ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻓﺮﯾﺎﺩﺭﺳﯽ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺁﯾﺎ ﮬﻮﮞ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﺅ ﮐﯿﺎ ﻇﻠﻢ ﮬﻮﺍ ﮬﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ? "
" ﺁﭖ ﮐﮯ ﺧﻮﺍﺹ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ ہر ﺭﺍﺕ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﺁﺗﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﻮﯼ ﭘﺮ ﻇﻠﻢ ﻭ ﺗﺸﺪّﺩ ﮐﺮﺗﺎ ہے۔ "
"ﺍِﺱ ﻭﻗﺖ ﻭﮦ ﮐﮩﺎﮞ ﮬﮯ?"
" ﺷﺎﯾﺪ ﺍﺏ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﮬﻮ۔"
" ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﻓﻮﺭﺍً ﺁ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻃﻼﻉ ﮐﺮ ﺩﻭ۔ " ﭘﮭﺮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﻣﺤﻞ ﮐﮯ ﺩﺭﺑﺎﻥ ﮐﻮ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ کہ ﺟﺐ بھی یہ دربار ﺁﺋﮯ ﺍﺳﮯ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﻭ۔ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﯽﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮬﻮﮞ ﺗﻮ ﭘﺮﻭﺍﮦ ﻣﺖ ﮐﺮﻭ۔
ﺍﮔﻠﯽ ﺭﺍﺕ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺘﺎﯾﺎ کہ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ہے۔
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺗﻠﻮﺍﺭ ہاتھ ﻣﯿﮟ ﻟﺌﮯ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻞ ﭘﮍﺍ۔ ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ کہ ﮔﮭﺮ کے ﺳﺎﺭﮮ ﭼﺮﺍﻍ ﺑﺠﮭﺎ ﺩﻭ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮬﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺲ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﺎ ﺳﺮ ﺗﻦ ﺳﮯ ﺟﺪﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔
ﭘﮭﺮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ کہ ﭼﺮﺍﻍ ﺭﻭﺷﻦ ﮐﺮ ﺩﻭ۔ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﺠﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﮔﺮ ﭘﮍﺍ۔
ﭘﮭﺮ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ : " ﺍﮔﺮ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﮬﮯ ﺗﻮ ﻟﮯ ﺁﺅ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﺨﺖ ﺑﮭﻮﮎ ﻟﮕﯽ ﮬﮯ۔ "
" ﺁﭖ ﺟﯿﺴﺎ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺠﮫ ﻏﺮﯾﺐ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﺋﮯ ﮔﺎ?"
" ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ہے، ﻟﮯ ﺁﺅ "!
ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﮐﮭﯽ ﺭﻭﭨﯽ ﺍﭨﮭﺎ ﻻﯾﺎ ﺟﺴﮯ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﺑﮍﯼ ﺭﻏﺒﺖ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ کہ ﭼﺮﺍﻏﻮﮞﮐﻮ ﺑﺠﮭﺎنا، ﺳﺠﺪﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﭨﯽ ﻃﻠﺐ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺁﺧﺮ ﮐﯿﺎ
ﻣﺎﺟﺮﺍ ﮬﮯ؟ سلطان نے فرمایا:
"ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﺳﻨﯽ ﺗﻮ ﺳﻮﭼﺎ کہ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﻇﻠﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ہمّت ﺻﺮﻑ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﺴﯽ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ہوﺳﮑﺘﯽ ﮬﮯ۔ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﭘﺪﺭﺍنہ ﺷﻔﻘﺖ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺋﻞ نہ ہوجائے۔ ﭼﺮﺍﻍ ﺟﻠﻨﮯ ﭘﺮ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ کہ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﯿﭩﺎ ﻧﮩﯿﮟ ہے ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺳﺠﺪۂ ﺷُﮑﺮ ﺑﺠﺎﻻﯾﺎ۔ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻣﺎﻧﮕﺎ کہ ﺟﺐ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﺼﯿﺒﺖ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ ہوا، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍللہ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻗﺴﻢ ﮐﮭﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ کہ ﺟﺐ ﺗﮏ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻞ ﺟﺎﺗﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻭﭘﺮ ﺭﻭﭨﯽ ﺣﺮﺍﻡ ہے۔ ﺍُﺱ ﻭﻗﺖ
ﺳﮯ ﺍﺏ ﺗﮏ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ نہ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ نہ پانی ﭘﯿﺎ تھا

Wednesday 6 January 2016

ﻣﺮﻏﯽ ﮐﮯ ﺍﻧﮉﮮ ﮐﮯ ﭼﭙﭩﮯ ﺳﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺁﮐﺴﯿﺠﻦ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ
ﺑﻠﺒﻠﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺭﮐﮭﺎ ﮬﮯ, ﻣﺮﻏﯽ ﺑﻐﻮﺭ ﺩﯾﮑﮫ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍُﺱ
ﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﺍﻭﭘﺮ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮬﺘﯽ ﮬﮯ۔ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﭼﻮﻧﭻ ﺳﮯ
ﺍﻧﮉﻭﮞ ﮐﻮ ﮐﺮﯾﺪﺗﮯ ﮬﻮﺋﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮬﻮ ﮔﺎ, ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻭﮦ
ﺍﺻﻞ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﯽ ﮐﺎﻡ ﮐﺮ ﺭﮬﯽ ﮬﻮﺗﯽ ﮬﮯ, ﻣﯿﺮﮮ ﺧﺎﻟﻖ ﻧﮯ
ﻣﺮﻏﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺳﺎﺋﻨﺴﺪﺍﻥ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮬﮯ۔
ﭼﻮﺯﮮ ﮐﺎ ﻣﻨﮧ ﺍﻭﭘﺮ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺑﻨﺘﺎ ﮬﮯ, ﺍﮔﺮ ﺗﻮ ﺍﻧﮉﮮ
ﮐﺎﭼﭙﭩﺎ ﺭﺥ ﺍﻭﭘﺮ ﺭﮬﮯ ﺗﻮ ﺑﭽﮯ ﮐﺎ ﻣﻨﮧ ﭨﮭﯿﮏ ﺍﺱ ﺑﻠﺒﻠﮯ
ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ,ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻣﮩﻠﺖ ﮬﻮﺗﯽ ﮬﮯ
ﮐﮧ ﻭﮦ ﺁﮐﺴﯿﺠﻦ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺑﻠﺒﻠﮯ ﮐﮯ ﺧﺘﻢ ﮬﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ
ﭘﮩﻠﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﻮﻝ ﮐﻮ ﺗﻮﮌ ﮐﺮ ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮑﻠﮯ۔ ﺑﺎﮬﺮ ﺁﮐﺴﯿﺠﻦ ﮐﺎ
ﺳﻤﻨﺪﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮬﮯ, ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺑﻠﺒﻠﮯ
ﮐﻮ ﮬﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮ ﻟﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﻝ ﮐﻮ
ﻧﮧ ﺗﻮﮌﮮ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﻧﺪﺭ ﮬﯽ ﻣﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ۔ ﺑﻌﺾ ﺩﻓﻌﮧ ﺑﭽﮧ
ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﺟﺐ ﺑﻮﻟﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﮯ ﺗﻮ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﮬﺮ ﺳﮯ
ﭼﻮﻧﭻ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﺧﻮﻝ ﮐﻮ ﺗﻮﮌ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ, ﻣﮕﺮ ﭘﮑﺎﺭ ﺿﺮﻭﺭﯼ
ﮬﮯ۔
ﺟﻮ ﺑﻨﺪﮮ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺧﺘﻢ ﮬﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﻥ
ﺧﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﺮﻓﺖ ﺳﮯ ﺁﺯﺍﺩ ﮬﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﺍﺋﻤﯽ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﻞ ﺟﺎﺗﯽ ﮬﮯ۔ ﺟﻮ ﻣﺨﻠﺺ ﺍﻭﺭ ﺻﺎﺩﻕ ﺍﻟﻄﻠﺐ
ﮬﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ, ﺍﻭﺭ ﮔﮍﮔﮍﺍ ﮐﺮ ﺭﺏ ﮐﻮ ﭘﮑﺎﺭﺗﮯ ﮬﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﻥ
ﺧﻮﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﺠﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﻓﺮﻣﺎﺗﺎ ﮬﮯ۔
ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : " ﺟﻮ ﮬﻤﺎﺭﯼ ﻃﻠﺐ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﻘّﺖ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮﺗﮯ
ﮬﯿﮟ ﮬﻢ ﯾﻘﯿﻨﺎً ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﺍﮦ ﺳﺠﮭﺎﺗﮯ ﮬﯿﮟ۔ " ﺧﻮﻟﻮﮞ
ﮐﯽ ﮔﺮﻓﺖ ﺳﮯ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﯾﮧ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺗﻘﺎﺿﮯ
ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﭘﻮﺭﮮ ﮐﺮﮮ۔
ﺳﻮﺭﮦ ﺍﻟﻤﺆﻣﻨﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : "ﺟﺲ ﺩﻥ ﺻﻮﺭ
ﭘﮭﻮﻧﮑﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ,ﺍﺱ ﺩﻥ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻧﺴﺐ ﮐﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﺭﺷﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﻮﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ
ﭘﻮﭼﮭﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﮐﺲ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺲ ﻗﻮﻡ ﺳﮯ
ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮬﻮ۔ "
ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ : " ﺁﺝ ﺗﻢ ﮬﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﺍﮐﯿﻠﮯ ﮬﯽ
ﺁﺋﮯ ﮬﻮ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﮬﻢ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﮐﯿﻼ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ
ﺟﻮ ﺧﻮﻝ ﮬﻢ ﻧﮯ ﺗﻢ ﭘﺮ ﭼﮍﮬﺎﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﺳﺐ ﭘﯿﭽﮭﮯ
ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮬﻮ۔ "
ﻣﮕﺮ ﮐﺎﺵ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﻥ ﺧﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺳﮯ ﻭﻗﺖ ﭘﺮ
ﺁﮔﺎﮦ ﮬﻮ ﺟﺎﺋﮯ

Monday 4 January 2016

Azaan ka jwaab

Hazrat salim (R)

مدینہ کا بازار تھا ، گرمی کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ لوگ نڈھال ہورہے تھے۔ایک تاجراپنے ساتھ ایک غلام کولیے پریشان کھڑا تھا۔غلام جوابھی بچہ ہی تھا وہ بھی دھوپ میں کھڑا پسینہ پسینہ ہورہا تھا۔ تاجر کاسارا مال اچھے داموں بک گیا تھا بس یہ غلام ہی باقی تھا جسے خریدنے میں کوئی بھی دلچسپی نہیں رکھا رہاتھا۔تاجر سوچ رہا تھا کہ اس غلام کو خرید کرشایداس لے گھاٹے کاسوداکیا ہے۔اس نے توسوچا تھا کہ اچھا منافع ملے گا لیکن یہاں تو اصل لاگت ملنا بھی دشوار ہورہا تھا۔اس نے سوچ لیا تھا کہ اب اگریہ غلا پوری قیمت پر بھی بکاتووہ اسے فوراََ بیچ دے گا۔
مدینہ کی ایک لڑکی کی اس غلام پر نظر پڑی تو اس نے تاجر سے پوچھا کہ یہ غلام کتنے کا بیچو گے۔ تاجر نے کہاکہ میں نے اتنے میں لیا ہے اور اتنے کاہی دے دوں گا۔اس لڑکی نے بچے پر ترس کھاتے ہوئے اسے خرید لیا۔تاجر نے بھی خداکاشکر ادا کیا اور واپسی کے راہ لی۔
مکہ سے ابوحذیفہ مدینہ آئے تو انہیں بھی اس لڑکی کاقصہ معلوم ہوا۔لڑکی کی رحم دلی سے متاثر ہوکر انہوں نے اسکے لیے نکاح کا پیغام بھیجا جوقبول کرلیا گیا۔یوں واپسی پر وہ لڑکی جس کانام ثہیتہ بخت بعارتھا انکی بیوی بن کر انکے ہمراہ تھی اور وہ غلام بھی مالکن کے ساتھ مکہ پہنچ گیا۔
ابوحذیفہ مکہ آکر اپنے پرانے دوست عثمان رضی اللہ عنہ ابن عفان سے ملے تو انہیں کچھ بدلا ہواپایا اور اگلے رویت میں سردمہری محسوس کی۔انہوں نے اپنے دوست سے استفسار کیا کہ عثمان یہ سرد مہری کیوں !!۔تو عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان نے جواب دیاکہ میں نے اسلام قبول کرلیاہے اور تم ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے توا ب ہماری دوستی کیسے چل سکتی ہے ۔
ابوحذیفہ نے کہا تو پھر مجھے بھی محمد ﷺ کے پاس لے چلو اور اس اسلام میں داخل کردو جسے تم قبول کرچکے ہو،چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں نبی کریم ﷺکی خدمت میں پیش کیااور وہ کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے ۔پھر آکرانہوں نے اپنی بیوی اور غلام کو اپنے مسلمان ہونے کا بتایا تو ان دونوں نے بھی کلمہ پڑھ لیا۔
حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس غلام سے کہا کہ چونکہ تم بھی مسلمان ہوگئے ہواس لیے میں اب تمہیں غلام نہیں رکھ سکتا لہٰذا میری طرف سے اب تم آزاد ہو۔غلام نے کہا آقا میرااب اس دنیا میں آپ دونوں کے سواکوئی نہیں۔آپ نے مجھے آزاد کردیا تو میں کہاں جاؤں گا۔حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس غلام کو اپنا بیٹا بنالیا اور اپنے پاس ہی رکھ لیا۔غلام نے قرآن پاک سیکھنا شروع کردیا اور کچھ ہی دنوں میں بہت ساقرآن یادکرلیا۔اور وہ جب قرآن پڑھتے تو بہت خوبصورت لہجے میں پڑھتے۔
ہجرت کے وقت نبی کریم ﷺ سے پہلے جن صحابہ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ اور انکایہ لے پالک بیٹا بھی تھا۔مدینہ پہنچ کر جب نماز کے لیے امام مقرر کرنے کاوقت آیاتو اس غلام کو خوبصورت تلاوت اور سب سے زیادہ قران حفظ ہونے کی وجہ سے انہیں امام چن لیاگیا۔اور انکی امامت میں حجرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی بھی نماز ادا کرتے تھے ۔مدینہ کے یہودیوں نے جب انہیں امامت کرواتے دیکھا تو حیران ہوگئے کہ یہ وہی غلام ہے جسے کوئی خریدنے کے لیے تیار نہ تھا۔آج دیکھو کتنی عزت ملی کہ مسلمانوں کا امام بنا ہواہے۔
اللہ پاک نے انہیں خوش گلواس قدربنایا تھا کہ جب آیات قرآنی تلاوت فرماتے تولوگوں پرایک محویت طاری ہوجاتی اور راہ گیرٹھٹک کرسننے لگتے۔ایک دفعہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ ﷺکے پاس حاضر ہونے میں دیر ہوئی۔آپ ﷺ نے توبولیں کہ ایک قاری تلاوت کررہا تھا اسکے سننے میں دیر ہوگئی اور خوش الحانی کی اس قدر تعریف کی کہ آنحضرت ﷺ خود چادر سنبھالے ہوئے باہر تشریف لے آئے۔دیکھا تو وہ بیٹھے تلاوت کررہے ہیں ۔آپ ﷺ نے خوش ہوکر فرمایا : اللہ پاک کاشکر ہے کہ اس نے تمہارے جیسے شخص کو میری امت میں بنایا۔
یہ خوش قسمت صحابی حضرت سالم رضی اللہ عنہ تھے۔انہوں نے جنگ موتہ میں جام شہادت نوش کیا۔اللہ کی کروڑہارحمتیں ہوں ان پر۔

Hazrat zainab (R)

عاشق حسین صدیقی
قرآن وحدیث کے مطابق حضور پرنور،سرورعالم،خاتم النبیین جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفی کے جملہ قرایت واروں،خاندان ،جوہاشم باالخصوص اہل بیت کرام کی محبت اور ان کاادب واحترام ایمان ہے جس کے دل میں اہل بیت رسول کی محبت نہیں اس کی ایمان کی شمع بجھی ہوئی ہے اور وہ منافقت کے اندھیروں میں بھٹک رہاہے۔صدہاایسی صحیح احادیث موجود ہیں جس میں اہل بیعت رسولﷺ سے محبت کرنے اور ان کاادب ملحوظ خاطر رکھنے کاحکم دیاگیاہے۔بے شک اہل بیعت رسول کی محبت ہمارا ایمان ہے لیکن یہ حضورﷺ کی رسالت کااجرنہیں بلکہ یہ شجرایمان کاثمر ہے جہاں ایمان ہوگاوہاں جب آل رسولﷺ ضرور ہوگی۔
اہل بیعت رسول اسلام کے ستون اور شریعت کی پابندی کے ذریعے ہیں۔ان کی برکت سے دنیا میں توحید اور حق کی بنیاد نئے سرے سے قائم ہوئی اور شرک وباطل اپنی جگہ سے ہلے۔جملہ اہل بیعت رسول ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چمکتے ہوئے نگینے ہیں۔ان میں ایک نگینہ حضور نبی کریم ﷺ کی نواسی امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ اورسیدہ النساء حضرت فاطمة الزھرہ رضی اللہ عنہا کی بڑی صاحبزادی اور تاریخ اسلام کی محترم شخصیت حضرت بی بی زینب رضی اللہ عنہا ہیں۔
آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت5جمادی الاول5ہجری میں مدینہ شریف میں ہوئی۔ولادت کے وقت رسول کریمﷺ مدینہ شریف سے باہر کسی سفرپر تھے۔ولادت کے تیسرے دن رسول کریمﷺ مدینہ شریف واپس آئے اور جب عادت سب سے پہلے اپنی پیاری صاحبزادی حضرت فاطمةالزھرہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے۔نومولودبچی کوسینے سے لگاکرپیار کیا،آپﷺ بہت خوش ہوئے آپ کانام زینب رضی اللہ عنہا رکھا۔زین کا مطلب زینت یاباپ کازیور۔اس موقع پر آپﷺنے ارشاد فرمایا کہ میری خواہش ہے کہ جویہاں موجود ہیں اور جو یہاں موجود نہیں ہیں اس بچی کااحترام کریں کیونکہ اس بچی کی شکل وصورت اپنی نانی حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا سے ملتی ہے۔انہیں عقیلہ بنو ہاشم کہاجاتا تھا۔ام کلثوم اورام الحسن آپ کنیت تھی۔ولادت کے ساتویں دن رسول کریمﷺ آپ رضی اللہ عنہ کاعقیقہ فرمایا۔آپ ابھی چھ سات برس کی تھیں کہ والدہ محترمہ حضرت فاطمةالزھرا رضی اللہ عنہا وصال فرماگئیں۔اس کے بعد آپ کوحضرت ام البنین رضی اللہ عنہ اور حضرت اسماء جیسی بلندپایہ خواتین کے ساتھ رہنے کااتفاق ہوا۔
سید الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ آپ کی بڑی تعظیم فرماتے جب وہ آتیں تو آپ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوجاتے اور اپنی جگی پر بٹھاتے۔بڑی صاحبزادی ہونے کہ بناء پر گھر کے تمام معاملات کی ذمہ داری آپ کے سپرد تھی۔رسول کریمﷺ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دینی تربیت حاصل کی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں کوفہ کے اہم گھرانوں کی خواتین نے اپنے خاوندوں کے ذریعے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ وہ حضرت بی بی زینب سے دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں۔اپنے والد حضرت علی کے حکم سے آپ رضی اللہ عنہ نے کوفہ کی خواتین کودرس دیتیں اور قرآن پاک کی تفسیر پڑھاتیں۔
حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کی پھوپھی جان حضرت بی بی زینب رضی اللہ عنہا اپنی پوری زندگی عبادت وریاضت میں بسرکی۔آپ رضی اللہ عنہ کی دینی وعلمی بصیرت اور غیر معمولی ذہانت کی بدولت آپ کو عقیلہ بنوہاشم کے لقب سے یادکیاجاتاتھا۔17ویں ہجری میں آپ کی شادی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بڑے بھائی اور رسول کریمﷺ کے چچیرے بھائی حضرت جعفر طیار بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کے فرزند حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوئی۔حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ ہجرت حبشہ کے دوران پیداہوئے تھے۔حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ عرب کے مشہور جواود کریم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جانثار تھے۔
حضرے بی بی زینب رضی اللہ عنہا کی حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے جو اولادہوئی دن کے نام علی، عون،اکبر،عباس،ام کلثوم،جعفر اکبرمحمد ہیں۔عون ومحمد61ہجری میں امام عالی مقام حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ میدان کربلاء میں شہید ہوئے۔میدان کربلا میں حضرت بی بی زنیب رضی اللہ عنہا کاکردار عظمت کی بلندیوں پرنظرآتا ہے سانحہ کربلاء کے بعد آپ نے نہایت صبراور شجاعت ست اہل بیعت کی خواتین اور بچوں کی حفاظت فرمائی۔ان کاحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ سے مدینہ اور وہاں سے کربلا تک کاسفر ایک غیرمعمولی کارنامہ ہے۔
10محرم61ہجری کی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد یتیموں بیواؤں بچوں،جوانوں،عورتوں اور مردوں کی نگرانی،دشمنوں کے مقابلے میں صبروتحمل کامظاہرہ لٹے ہوئے قافلے کاقید ہونا،کوفہ میں ان کی الاجواب تقریریں ،عبداللہ بن زیاد کی گستاخیوں کا جواب۔ اس کے بعد شام کاسفر،شام کے بازاروں اور یزید کے دربار میں اپنی حفانیت اور واقعات کربلا کااعلان فصیح وبلیغ خطبے اور برحستہ جوابات ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خطبہ دے رہے ہوں۔ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کوابن زیادکے بے رحم ہاتھوں سے بچاتا بھی ان کااہم کارنامہ ہے۔ومشق میں اہل بیت کے ساتھ قیدرہیں۔ومشق سے رہاہوکر مدینہ تشریف لائیں اور واقعات کربلا کومئوثرانداز میں بیان فرمایا۔پھر آپ کومدینہ میں بھی آپ کوچین سے نہ رہنے دیا گیا اور مصر ہجرت پر مجبور کردیا گیا۔وہاں سے آپ کو ایک بار پھر گرفتار کرکے شام لایا گیا۔دمشق میں ایک بدبخت شامی نے حملہ کرکے آپ کوشہید کردیا۔آپ رضی اللہ عنہ کے خاوند حضرت عبداللہ بن جعفر ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے وہیں زمین خرید کرآپ کو دفن فرمادیا۔ آپ کامزار مبارک تمام دنیا کے مسلمانوں کیلئے عقیدت واحترام کامقام ہے

Sunday 3 January 2016

Naran lake view

Ya Gareeb Nawaaz

Khwaja moinuddin chisti history was born in 1142 CE on sistan which is located in Afghanistan, khuwaja moin-uddin chisty belonged from syed families, he lost his parents in the age o 15th, when he was a child that time he was different from other people, he spent his time prayers, khuwaja moin-uddin histai play an important role to spread the Islam in Hindustan (subcontinent). He died in 1236 CE, and his shrine is present in Ajmer, India. In this Page you will find and read of Khwaja Moinuddin Chisti biography in urdu hindi and roman.

Khwaja Moinuddin Chisti

(Biography)

  
Khuwaja moin-uddin chisti sitan ke ilaqay sanjar me 1142 me  paida howay aur 1236me ajmer me wafat pai. 35 inho ne pandrah saal ki umar me darweshi zindagi akhtiyar ker lit hi. In ke baray me mash,hor hai ke pandrah baras ki umar me walid se warsa me milnay walay bag me kaam ker rahay thay ke kahien se ek faqeer namodar howa. Khuwaja moin-uddin ne isay angor khanay ko diya. Faqeer ne jholi se ek sokhi roti ka tokra nikal ker inhe khanay ke liye diya jo inho ne kha liya aur isay khatay hi khuwaja moin-uddin ki halat-e-qalb badal gai. Aur inho ne isi waqt dunyawi zindagi ko khair bad keh diya. Bag farokht ker ke inho ne apna sara asasa garibon me taqseem ker diya aur apnay abai gaon chor ker taweel safar pe rawana howay wo bukhara aur samara kand pohanch gae aur wahan hasol-e-ilm ke bad Iraq chalay gae. Haroon ke moqam pe inki mulaqat khuwaja Usman se hoi aur wo inke halka muriden me shamil hogae. Arsa bees (20) saal tak apna murshed ke sath halat-e-safar me rahay aur inki khidmat kertay rahay. Doran-e-safar in ki mulaqat sheikh abdul qadeer gilani se hoi. In ke ilawa sheikh shahab uddin seherordi aur apnay waqt ke kai namwar sufiyon se bhi milay. 1192 me bar-e-sagir me ae Lahore aur multan ke kuch arsay qayam kernay ke bad 1206 me ajmeri pohanchay waha mustaqil tor pe qayam kiya. Ajmer is waqt raja purthoru raj ki saltanat ka darul-khilafa tha.
Khuwaja moin-uddin chisti ka shumar islam ke sab se awal’lin mubaligin me hota hai jinho ne Hindustan ke awam per gehra naqosh subat kiye. In ke hath per bet ker ke hindu ki ek bari tadad ne islam qabool kiya. 36 ajmer ke atraf-o-ankaf me rahnay wlay taqreban tamam hindu ap ke aqedat-mand ban gae. Islam ki asha’at me ap ne giran baha khidmat anjam diye is ka sabot is bat se milta hai kea j bhi hazaron lakhon ki tadad me sab hi mazhab ke pero ka rap ke urs me sharik hotay hain. is azeem dargah me apna sar jhukatay hain aur sajhdah nasheen hazrat ki khidmat me bohat bari miqdar me chanda paish kertay hain aur roza mubarak ki tamerat-o-tarmimat wahairah me hissa letay hain
Bar-E-Sageer Me Chishtiyan Silsilay Ka Qayam
Chishtiyan silsilay ke bani khuwaja ishaq shami thay. Wafat 940 is silsila ko bar-e-sageer khuwaja moin uddin chisti ne mutaruf kerwaya (38) aur ap ne bar-e-saeer me pehlay sufi silsilay ki dag bel dali isi liye ap ko Hindustan ke wali/ sufike nam se yaad kiya jata hai. (39) ap ne chand hi arsay me hidustan ke taweel-o-arz me bari tadad me khan-ka hain qaim kein khas tor per  dordaraz aur wiran jagahon me in ki mojodgi ek azeem kar-nama nazar ata hai. In khan-ka’hon me aap ke muqledin maraqba kertay thay aur ap ki ba-barkat zaat se rohani faizan hasil kertay thay. Ye khan-ka’hein tasuf ke mushtaq logon ke liye misali fiza farhaam kerti thi.
Ap Ke Nam-War Shagird Aur Muridin
Khuwaja moin-uddin chisti ne apnay mazhabi doray ke doran kai namwar shagird aur dosray sufiyan akram pe gehray asrat muratab kiye. In ki amli tarbiyat ki aur batini aur rohani faizan se mustafid honay ka moqa diya. In me qabil-e-zikr hazrat ka naam sheikh hamid-uddin na-gawari, sheikh qutub-uddin bakhtiyar ka ki (jin ke naam qutub-uddinaebak ne qutub minar dehli tamer kerwaya) (40) aur sheikh kabir baba fareed ganj sukar hain. baba fareed ne asha’at-e-islam me numaya aur giran baha khidmat anjam diye khas tor per inho ne chistiya silsilay ki shakein qaim ker ke farog islam me bhar-pur hissa liya  in shakho me nizami aur sabiri shakhein sar-e-fehrist hai

Khuwaja Ajmeri Ki Islami Khidmat