World. Visits

Flag Counter

Friday 25 December 2015

Wednesday 23 December 2015

Hazrat yunas

ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺍﻣﺮﻭﺯ ﺟﺎﻥ ﻭﻟﺴﻦ ﻓﯿﻠﻮ ﮐﻮﺋﺰ ﮐﺎﻟﺞ ﺁﮐﺴﻔﻮﺭﮈ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﯾﻮﻧﺲ ( ﻉ ) ﮐﮯ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﮯ ﭘﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮦ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﻘﺎﻟﮧ ﺗﮭﯿﻮﻟﻮﺟﯿﮑﻞ ﺭﯾﻮﯾﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ
ﻭﮦ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ 1890 ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺟﮩﺎﺯ ﻓﺎﮎ ﻟﯿﻨﮉ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﻭﮨﯿﻞ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﺍﺳﮑﺎ ﺍﯾﮏ ﺷﮑﺎﺭﯼ ﺟﯿﻤﺲ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﮔﺮ ﭘﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﻭﮨﯿﻞ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﻧﮕﻞ ﻟﯿﺎ۔ ﺑﮍﯼ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﺩﻭ ﺭﻭﺯ ﺑﻌﺪ ﭘﮑﮍﯼ ﮔﺌﯽ ۔ ﺍﺳﮑﺎ ﭘﯿﭧ ﭼﺎﮎ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺷﮑﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮦ ﻧﮑﻼ ۔ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺍﺳﮑﺎ ﺟﺴﻢ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﯽ ﺍﻧﺪﺭﻭﻧﯽ ﺗﭙﺶ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺳﻔﯿﺪ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﺩﻭ ﮨﻔﺘﮯ ﮐﮯ ﻋﻼﺝ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺑﻠﮑﻞ ﺻﺤﺖ ﻣﻨﺪ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ۔
1958 ﻣﯿﮟ " ﺳﺘﺎﺭﮦ ﻣﭽﮭﻠﯽ " ﻧﺎﻡ ﺟﮩﺎﺯ ﻓﺎﮎ ﻟﯿﻨﮉ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﻣﭽﮭﻠﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﮑﺎ " ﺑﺎﺭﮐﻠﮯ " ﻧﺎﻣﯽ ﻣﻼﺡ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﮔﺮ ﭘﮍﺍ ﺟﺴﮯ ﺍﯾﮏ ﻭﮨﯿﻞ ﻧﮯ ﻧﮕﻞ ﻟﯿﺎ ۔ ﺍﺗﻔﺎﻕً ﻭﮦ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﭘﮑﮍﯼ ﮔﺌﯽ ۔ ﭘﻮﺭﺍ ﻋﻤﻠﮧ ﺍﺳﮯ ﮐﻠﮩﺎﮌﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﺎﭨﻨﮯ ﻟﮕﺎ ۔ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻥ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﮐﺎﻡ ﺟﺎﺭﯼ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﺮﺩﮦ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﮯ ﭘﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺣﺮﮐﺖ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺋﯽ ۔ ﺍﺳﮑﺎ ﭘﯿﭧ ﭼﯿﺮﺍ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮑﺎ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﺑﺎﺭﮐﻠﮯ ﻧﮑﻼ ﺟﻮ ﺗﯿﻞ ﺍﻭﺭ ﭼﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ ﻟﺘﮭﮍﺍ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ۔ ﺑﺎﺭﮐﻠﮯ ﮐﻮ ﺩﻭ ﮨﻔﺘﻮﮞ ﺑﻌﺪ ﮨﻮﺵ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﭙﺘﺎ ﺳﻨﺎﺋﯽ ۔
ﺑﺎﺭﮐﻠﮯ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﯾﮧ ﺧﺒﺮ ﺍﺧﺒﺎﺭﺍﺕ ﻭ ﺟﺮﺍﺋﺪ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭙﯽ ﺗﻮ ﻋﻠﻢ ﻭ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﮩﻠﮑﮧ ﻣﭻ ﮔﯿﺎ ۔ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﻟﯿﮯ ۔ ﺍﯾﮏ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺳﺎﺋﻨﺴﯽ ﺭﺳﺎﻟﮯ ﮐﮯ ﺍﯾﮉﯾﭩﺮ ﻣﺴﭩﺮ ﺍﯾﻢ ﮈﯼ ﭘﺎﻭﻝ ﻧﮯ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻟﮑﮭﺎ ﮐﮧ ۔ " ﺍﺱ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮐﮯ ﻣﻨﮑﺸﻒ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﯾﻮﻧﺲ ( ﻉ ) ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺁﺳﻤﺎﻧﯽ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺣﺮﻑ ﺑﮧ ﺣﺮﻑ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﮯ " ۔
1992 ﻣﯿﮟ ﺁﺳﭩﺮﯾﻠﯿﺎ ﮐﺎ 49 ﺳﺎﻝ ﻣﺎﮨﯽ ﮔﯿﺮ ﭨﻮﺭﺍﻧﺴﮯ ﮐﺎﺋﺲ ﻭﮨﯿﻞ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﮯ ﭘﯿﭧ ﻣﯿﮟ 8 ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﻌﺠﺰﺍﻧﮧ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺑﭻ ﮔﯿﺎ ۔ ﻭﮦ ﺑﺤﺮﮨﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﭨﺮﺍﻟﺮ ﭘﺮ ﻣﭽﮭﻠﯿﺎﮞ ﭘﮑﮍ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﯼ ﻟﮩﺮ ﺍﺳﮑﮯ ﭨﺮﺍﻟﺮ ﮐﻮ ﺑﮩﺎ ﻟﮯ ﮔﺌﯽ ۔ ﻭﮦ ﮐﺌﯽ ﮔﮭﻨﭩﻮﮞ ﺗﮏ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﺎﺅﮞ ﻣﺎﺭﺗﺎ ﺭﮨﺎ ۔
ﺍﺳﯽ ﺍﺛﻨﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﯾﻮﮞ ﻟﮕﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﺌﯽ ﺷﺎﺭﮎ ﻣﭽﮭﻠﯿﺎﮞ ﺍﺳﮑﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮍﮪ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ ۔ ﺟﻠﺪ ﮨﯽ ﺍﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺩﺭﺍﺻﻞ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﻭﮨﯿﻞ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﯽ ﺯﺩ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻣﻨﮧ ﮐﮭﻮﻟﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮍﮪ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ۔ ﻭﮨﯿﻞ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﺑﺎ ﻟﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺳﮑﯽ ﺧﻮﺵ ﻗﺴﻤﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺟﺒﮍﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﭼﻤﭩﺎ ﺭﮨﺎ ۔ ﻭﮨﯿﻞ ﺍﺳﮑﻮ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﻧﮕﻠﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﻣﺰﺍﺣﻤﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺎ ﺟﺴﮑﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﺍﮐﺴﯿﺠﻦ ﻣﻞ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺯﻧﺪﮦ ﺗﮭﺎ ۔ 8 ﮔﮭﻨﭩﮯ ﮐﯽ ﺍﺱ ﺟﺪﻭﺟﮩﺪ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺒﮑﮧ ﻭﮦ ﻧﯿﻢ ﺑﮯ ﮨﻮﺵ ﮨﻮﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺍﺳﭩﺮﯾﻠﯿﺎ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﺣﻞ ﭘﺮ ﭘﺎﯾﺎ ۔
ﺩﺭﺍﺻﻞ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﻧﮯ ﻧﮕﻠﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﮐﺎﻣﯽ ﭘﺮ ﺍﺱ ﺍﮔﻞ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﯾﻮﮞ ﺍﺳﮑﯽ ﺟﺎﻥ ﺑﭻ ﮔﺌﯽ ۔
ﺍﻥ ﺳﺐ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﮯ ﭘﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺗﮩﮧ ﺑﮧ ﺗﮩﮧ ﺗﺎﺭﯾﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﺎﻧﺲ ﻟﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺸﮑﻞ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ ۔ !
ﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﯾﻮﻧﺲ ( ﻉ ) ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔۔۔ ! " ﺁﺧﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺗﺎﺭﯾﮑﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮑﺎﺭﺍ " ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺪﺍ ﻣﮕﺮ ﺗﻮ ، ﭘﺎﮎ ﮨﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﺫﺍﺕ ، ﺑﮯ ﺷﮏ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻗﺼﻮﺭ ﮐﯿﺎ " ۔۔۔۔۔۔۔۔ !!
ﺍﻟﻠﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﻮ ﮐﺎﻣﻞ ﮐﺮﮮ ۔۔ !! ﺁﻣﯿﻦ !
ﺗﺤﺮﯾﺮ ﺷﺎﮨﺪﺧﺎﻥ ( ﺍﻧﺘﻄﺎﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﺷﮩﺎﺑﯽ ﮐﯽ ﮐﺘﺎﺏ " ﺟﻐﺮﺍﻓﯿﮧ ﻗﺮﺁﻥ )

Mother

وہے اور چپهکلی سے خوفزدہ ہونے والی عورت کو جب تخلیق کی ذمہ داری لینے کے لیے چنا جاتا ہے تو وہ ماں بننے جیسے مشکل تر اور آزمائش بهرے مرحلے سے گزر جاتی ہے.
انجکشن کی سوئی دیکھ کر آنکھیں بهینچ لینے والی لڑکی اپنے پهول سے بچے کو اپنے ہاتھوں سے خود انجکشن دی سکتی ہے. کبهی آپ نے تهیلی سیمیا کے شکار بچے کی ماں کے بارے میں سوچا جو ہر رات بچے کے پیٹ میں انجکشن لگا کر اس کے سرہانے بیٹهی رہتی ہے کیونکہ خطرہ ہوتا ہے کہ اگر بچے نے کروٹ بدلی تو سوئی اسے نقصان پہنچا سکتی ہے.
کبهی غور کجئیے گا کہ شوگر کے مریض بچے کی ماں کیسے اپنے جگر گوشے کو انسولین دیتی ہو گی.
دمے جیسا بهیانک مرض ایک ماں کا کیسے امتحان لیتا ہے.
ماں کس حوصلے سے اپنے بچے کو اکهڑے ہوئے سانس لیتے دیکهتی ہو گی. اس ماں کی اپنی سانسیں یہ سوچ کر اٹکی رہتی ہے کہ جانے میرا بچہ اگلا سانس لے گا یا نہیں.
یہ سہ حرفی "ماں" وہ داستان ہے جو آج تک کسی مصنف سے لکهی نہ گئی.
وہ نظم ہے جسے کوئی شاعر سوچ بهی نہ سکا. وہ دهن ہے جیسے کوئی موسیقار تخلیق نہ کر پایا.
وہ نغمہ ہے جیسے گایا نہیں جا سکتا ہے.
صرف دو ہستیوں کو معلوم ہے کہ ماں ہے کیا اور ھے کون؟؟
ایک ماں کو بنانے والا دوسرا ماں بننے والی.۔۔۔
(ھماری جان سے پیاری ھماری ماؤں کے نام) .

Naat

Terey hotey janam liya hota
Koi mujh sa na doosra hota

Saans letta Tu aur mein jee uth'ta
Kaash Makkah ki mein fiza hota

Hijraton mein paraoo hota mein
Aur Tu khuch dair ko rukaa hota

Terey hujray key Aass pass kaheen
Mein koi kacha rastaa hota

Beech Taaif bawaqt e sung-zani
Teray lab pe saji dua hota

kisi ghazwa mein zakhmi ho ker mein
Terey qadmon mein jaa gira hota

Kaash “Uhad” mein shareek ho sakta
Aur baqi na phir bacha hota

Teri kamli ka soot kiyun na howa
Terey shano'n pey jhooltaa hota

Chob hota mein teri chokhat kee
Ya terey hath ka asaa hota

Teri pakeeza zindagi ka mein
Koi gumnaam waqiaa hota

Lafz hota kissi mein ayat ka
Jo Terey hont sey adaa hota

Mein koi jungjoo arab hota
Aur Terey samney jhuka hota

Mein bhi hota Tera ghulam koi
Laakh kehta na mein rihaa hota

Sochta hoon mein tab janam leta
Jaaney phir kiya sey kiya hota

Chaand hota Terey zamaney ka
Phir Terey hukm sey battaa hota

Paani hota udaas chashmo'n ka
Terey qadmo'n pey beh giya hota

Poda hota mein jaltey sehra mein
Aur Terey haath sey laga hota

Teri sohbat mujhey milli hoti
Mein bhi tab kitna khush'numa hota

Mujh pey parti jo Teri chashm-e-karam
Admi kiya .... mein moujza hota

Tukra hota mein ik baadil ka
Aur Terey sath ghoom'ta hota

Aasman hota ahed-e-Nabvi ka
Tujh ko hairat sey dekh'ta hota

Khaak hota mein Teri galiyoon kee
Aur terey paoon choom'ta hota

PaiR hota khajoor ka mein koi
Jiss ka phal Tu ney khaa liya hota

Bacha hota ghareeb bewa ka
Sir Teri goad mein chupa hota

Rasta hota teray guzarnay ka
aur Tera rasta daikhta hota

Friday 4 December 2015

Walida ki kassam

اعلان نبوت کے چند روز بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات مکہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ انہیں ایک گھر میں سے کسی کے رونے کی آواز آئی ۔ آواز میں اتنا درد تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے اختیار اس گھر میں داخل ہوگئے۔ دیکھا تو ایک نوجوان جو کہ حبشہ کا معلوم ہوتا ہے چکی پیس رہا ہے اور زارو قطار رو رہا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ میں ایک غلام ہوں ۔
سارا دن اپنے مالک کی بکریاں چراتا ہوں شام کو تھک کر جب گھر آتا ہوں تو، میرا مالک مجھے گندم کی ایک بوری پیسنے کے لیے دے دیتا ہے جس کو پیسنے میں ساری رات لگ جاتی ہے ۔ میں اپنی قسمت پر رو رہا ہوں کہ میری بھی کیا قسمت ہے میں بھی تو ایک گوشت پوست کا انسان ہوں ۔ میرا جسم بھی آرام مانگتا ہے مجھے بھی نیند ستاتی ہے لیکن میرے مالک کو مجھ پر ذرا بھی ترس نہیں آتا ۔
کیا میرے مقدر میں ساری عمر اس طرح رو رو کے زندگی گزارنا لکھا ہے ؟؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے مالک سے کہہ کر تمہاری مشقت تو کم نہیں کروا سکتاکیوں کہ وہ میری بات نہیں مانے گا،ہاں میں تمہاری تھوڑی مدد کرسکتا ہوں کہ تم سو جاؤ اور میں تمہاری جگہ پر چکی پیستا ہوں ۔ وہ غلام بہت خوش ہوا اور شکریہ ادا کرکے سو گیا
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسکی جگہ چکی پیستے رہے، جب گندم ختم ہوگئی تو آپ اسے جگائے بغیر واپس تشریف لے آئے ۔ دوسرے دن پھر آپ وہاں تشریف لے گئے اور اس غلام کو سلا کر اسکی جگہ چکی پیستے رہے ۔ تیسرے دن بھی یہی ماجرا ہوا کہ آپ اس غلام کی جگہ ساری رات چکی پیستے اور صبح کو خاموشی سے اپنے گھر تشریف لے آتے،،
چوتھی رات جب آپ وہاں گئے تو اس غلام نے کہا، اے اللہ کے بندے آپ کون ہو اور میرا اتنا خیال کیوں کر رہے ہو ۔ہم غلاموں سے نہ کسی کو کوئی ڈر ہوتا ہے اور نہ کوئی فائدہ ۔
تو پھر آپ یہ سب کچھ کس لیے کر رہے ہو ؟؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں یہ سب انسانی ہمددری کے تحت کر رہا ہوں اس کے علاوہ مجھے تم سے کوئی غرض نہیں، اس غلام نے کہا کہ آپ کون ہو ،،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں علم ہے کہ مکہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ۔اس غلام نے کہا ہاں میں نے سنا ہے کہ ایک شخص جس کا نام محمد ہے اپنے آپ کو اللہ کا نبی کہتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں وہی محمد ہوں ۔
یہ سن کر اس غلام نے کہا کہ اگر آپ ہی وہ نبی ہیں تو مجھے اپنا کلمہ پڑھائیے کیوں اتنا شفیق اور مہربان کوئی نبی ہی ہوسکتا ہے جو غلاموں کا بھی اس قدر خیال رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کلمہ پڑھا کر مسلمان کردیا،
پھر دنیا نے دیکھا کہ اس غلام نے تکلیفیں اور مشقتیں برداشت کی لیکن دامن مصطفیٰ نہ چھوڑا ۔ انہیں جان دینا تو گوارا تھا لیکن اتنے شفیق اور مہربان نبی کا ساتھ چھوڑنا گوارہ نہ تھا.. آج دنیا انہیں بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے نام سے جانتی ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمددری اور محبت نے انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بے لوث غلام بنا کر رہتی دنیا تک مثال بنا دیا ...
اس واقعه سے یه سبق ملا که ھر کام الله کی رضا کے لیے کرتے جائیں- کس سے اجر کی امید نا رکھیں- کیوں که اجر الله کی ذات نے دینا ھے- کچھ لوگ کھتے ھیں که اس نے برا کیا، اس لیے تم بھی اس کا کام نا کرو- نھی نھی... الله کے نبی (درود و سلام) کے اخلاق اپنانے کی کوشش کریں- بے شک اس عظیم ذات کے اخلاق تک پھنچنے کا تصور نھی، مگر کوشش ھم کو بھترین امتی بنا سکتی ھے-
میرے نبی (درود و سلام) جیسا کوئی نھی
آپ (درود و سلام) پر میری، میرے والدین اور میری اولاد کی جان بھی قربان