وہے اور چپهکلی سے خوفزدہ ہونے والی عورت کو جب تخلیق کی ذمہ داری لینے کے لیے چنا جاتا ہے تو وہ ماں بننے جیسے مشکل تر اور آزمائش بهرے مرحلے سے گزر جاتی ہے.
انجکشن کی سوئی دیکھ کر آنکھیں بهینچ لینے والی لڑکی اپنے پهول سے بچے کو اپنے ہاتھوں سے خود انجکشن دی سکتی ہے. کبهی آپ نے تهیلی سیمیا کے شکار بچے کی ماں کے بارے میں سوچا جو ہر رات بچے کے پیٹ میں انجکشن لگا کر اس کے سرہانے بیٹهی رہتی ہے کیونکہ خطرہ ہوتا ہے کہ اگر بچے نے کروٹ بدلی تو سوئی اسے نقصان پہنچا سکتی ہے.
کبهی غور کجئیے گا کہ شوگر کے مریض بچے کی ماں کیسے اپنے جگر گوشے کو انسولین دیتی ہو گی.
دمے جیسا بهیانک مرض ایک ماں کا کیسے امتحان لیتا ہے.
ماں کس حوصلے سے اپنے بچے کو اکهڑے ہوئے سانس لیتے دیکهتی ہو گی. اس ماں کی اپنی سانسیں یہ سوچ کر اٹکی رہتی ہے کہ جانے میرا بچہ اگلا سانس لے گا یا نہیں.
یہ سہ حرفی "ماں" وہ داستان ہے جو آج تک کسی مصنف سے لکهی نہ گئی.
وہ نظم ہے جسے کوئی شاعر سوچ بهی نہ سکا. وہ دهن ہے جیسے کوئی موسیقار تخلیق نہ کر پایا.
وہ نغمہ ہے جیسے گایا نہیں جا سکتا ہے.
صرف دو ہستیوں کو معلوم ہے کہ ماں ہے کیا اور ھے کون؟؟
ایک ماں کو بنانے والا دوسرا ماں بننے والی.۔۔۔
(ھماری جان سے پیاری ھماری ماؤں کے نام) .
انجکشن کی سوئی دیکھ کر آنکھیں بهینچ لینے والی لڑکی اپنے پهول سے بچے کو اپنے ہاتھوں سے خود انجکشن دی سکتی ہے. کبهی آپ نے تهیلی سیمیا کے شکار بچے کی ماں کے بارے میں سوچا جو ہر رات بچے کے پیٹ میں انجکشن لگا کر اس کے سرہانے بیٹهی رہتی ہے کیونکہ خطرہ ہوتا ہے کہ اگر بچے نے کروٹ بدلی تو سوئی اسے نقصان پہنچا سکتی ہے.
کبهی غور کجئیے گا کہ شوگر کے مریض بچے کی ماں کیسے اپنے جگر گوشے کو انسولین دیتی ہو گی.
دمے جیسا بهیانک مرض ایک ماں کا کیسے امتحان لیتا ہے.
ماں کس حوصلے سے اپنے بچے کو اکهڑے ہوئے سانس لیتے دیکهتی ہو گی. اس ماں کی اپنی سانسیں یہ سوچ کر اٹکی رہتی ہے کہ جانے میرا بچہ اگلا سانس لے گا یا نہیں.
یہ سہ حرفی "ماں" وہ داستان ہے جو آج تک کسی مصنف سے لکهی نہ گئی.
وہ نظم ہے جسے کوئی شاعر سوچ بهی نہ سکا. وہ دهن ہے جیسے کوئی موسیقار تخلیق نہ کر پایا.
وہ نغمہ ہے جیسے گایا نہیں جا سکتا ہے.
صرف دو ہستیوں کو معلوم ہے کہ ماں ہے کیا اور ھے کون؟؟
ایک ماں کو بنانے والا دوسرا ماں بننے والی.۔۔۔
(ھماری جان سے پیاری ھماری ماؤں کے نام) .
No comments:
Post a Comment