اعلان نبوت کے چند روز بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات مکہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ انہیں ایک گھر میں سے کسی کے رونے کی آواز آئی ۔ آواز میں اتنا درد تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے اختیار اس گھر میں داخل ہوگئے۔ دیکھا تو ایک نوجوان جو کہ حبشہ کا معلوم ہوتا ہے چکی پیس رہا ہے اور زارو قطار رو رہا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ میں ایک غلام ہوں ۔
سارا دن اپنے مالک کی بکریاں چراتا ہوں شام کو تھک کر جب گھر آتا ہوں تو، میرا مالک مجھے گندم کی ایک بوری پیسنے کے لیے دے دیتا ہے جس کو پیسنے میں ساری رات لگ جاتی ہے ۔ میں اپنی قسمت پر رو رہا ہوں کہ میری بھی کیا قسمت ہے میں بھی تو ایک گوشت پوست کا انسان ہوں ۔ میرا جسم بھی آرام مانگتا ہے مجھے بھی نیند ستاتی ہے لیکن میرے مالک کو مجھ پر ذرا بھی ترس نہیں آتا ۔
کیا میرے مقدر میں ساری عمر اس طرح رو رو کے زندگی گزارنا لکھا ہے ؟؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے مالک سے کہہ کر تمہاری مشقت تو کم نہیں کروا سکتاکیوں کہ وہ میری بات نہیں مانے گا،ہاں میں تمہاری تھوڑی مدد کرسکتا ہوں کہ تم سو جاؤ اور میں تمہاری جگہ پر چکی پیستا ہوں ۔ وہ غلام بہت خوش ہوا اور شکریہ ادا کرکے سو گیا
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسکی جگہ چکی پیستے رہے، جب گندم ختم ہوگئی تو آپ اسے جگائے بغیر واپس تشریف لے آئے ۔ دوسرے دن پھر آپ وہاں تشریف لے گئے اور اس غلام کو سلا کر اسکی جگہ چکی پیستے رہے ۔ تیسرے دن بھی یہی ماجرا ہوا کہ آپ اس غلام کی جگہ ساری رات چکی پیستے اور صبح کو خاموشی سے اپنے گھر تشریف لے آتے،،
چوتھی رات جب آپ وہاں گئے تو اس غلام نے کہا، اے اللہ کے بندے آپ کون ہو اور میرا اتنا خیال کیوں کر رہے ہو ۔ہم غلاموں سے نہ کسی کو کوئی ڈر ہوتا ہے اور نہ کوئی فائدہ ۔
تو پھر آپ یہ سب کچھ کس لیے کر رہے ہو ؟؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں یہ سب انسانی ہمددری کے تحت کر رہا ہوں اس کے علاوہ مجھے تم سے کوئی غرض نہیں، اس غلام نے کہا کہ آپ کون ہو ،،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں علم ہے کہ مکہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ۔اس غلام نے کہا ہاں میں نے سنا ہے کہ ایک شخص جس کا نام محمد ہے اپنے آپ کو اللہ کا نبی کہتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں وہی محمد ہوں ۔
یہ سن کر اس غلام نے کہا کہ اگر آپ ہی وہ نبی ہیں تو مجھے اپنا کلمہ پڑھائیے کیوں اتنا شفیق اور مہربان کوئی نبی ہی ہوسکتا ہے جو غلاموں کا بھی اس قدر خیال رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کلمہ پڑھا کر مسلمان کردیا،
پھر دنیا نے دیکھا کہ اس غلام نے تکلیفیں اور مشقتیں برداشت کی لیکن دامن مصطفیٰ نہ چھوڑا ۔ انہیں جان دینا تو گوارا تھا لیکن اتنے شفیق اور مہربان نبی کا ساتھ چھوڑنا گوارہ نہ تھا.. آج دنیا انہیں بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے نام سے جانتی ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمددری اور محبت نے انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بے لوث غلام بنا کر رہتی دنیا تک مثال بنا دیا ...
اس واقعه سے یه سبق ملا که ھر کام الله کی رضا کے لیے کرتے جائیں- کس سے اجر کی امید نا رکھیں- کیوں که اجر الله کی ذات نے دینا ھے- کچھ لوگ کھتے ھیں که اس نے برا کیا، اس لیے تم بھی اس کا کام نا کرو- نھی نھی... الله کے نبی (درود و سلام) کے اخلاق اپنانے کی کوشش کریں- بے شک اس عظیم ذات کے اخلاق تک پھنچنے کا تصور نھی، مگر کوشش ھم کو بھترین امتی بنا سکتی ھے-
میرے نبی (درود و سلام) جیسا کوئی نھی
آپ (درود و سلام) پر میری، میرے والدین اور میری اولاد کی جان بھی قربان
سارا دن اپنے مالک کی بکریاں چراتا ہوں شام کو تھک کر جب گھر آتا ہوں تو، میرا مالک مجھے گندم کی ایک بوری پیسنے کے لیے دے دیتا ہے جس کو پیسنے میں ساری رات لگ جاتی ہے ۔ میں اپنی قسمت پر رو رہا ہوں کہ میری بھی کیا قسمت ہے میں بھی تو ایک گوشت پوست کا انسان ہوں ۔ میرا جسم بھی آرام مانگتا ہے مجھے بھی نیند ستاتی ہے لیکن میرے مالک کو مجھ پر ذرا بھی ترس نہیں آتا ۔
کیا میرے مقدر میں ساری عمر اس طرح رو رو کے زندگی گزارنا لکھا ہے ؟؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے مالک سے کہہ کر تمہاری مشقت تو کم نہیں کروا سکتاکیوں کہ وہ میری بات نہیں مانے گا،ہاں میں تمہاری تھوڑی مدد کرسکتا ہوں کہ تم سو جاؤ اور میں تمہاری جگہ پر چکی پیستا ہوں ۔ وہ غلام بہت خوش ہوا اور شکریہ ادا کرکے سو گیا
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسکی جگہ چکی پیستے رہے، جب گندم ختم ہوگئی تو آپ اسے جگائے بغیر واپس تشریف لے آئے ۔ دوسرے دن پھر آپ وہاں تشریف لے گئے اور اس غلام کو سلا کر اسکی جگہ چکی پیستے رہے ۔ تیسرے دن بھی یہی ماجرا ہوا کہ آپ اس غلام کی جگہ ساری رات چکی پیستے اور صبح کو خاموشی سے اپنے گھر تشریف لے آتے،،
چوتھی رات جب آپ وہاں گئے تو اس غلام نے کہا، اے اللہ کے بندے آپ کون ہو اور میرا اتنا خیال کیوں کر رہے ہو ۔ہم غلاموں سے نہ کسی کو کوئی ڈر ہوتا ہے اور نہ کوئی فائدہ ۔
تو پھر آپ یہ سب کچھ کس لیے کر رہے ہو ؟؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں یہ سب انسانی ہمددری کے تحت کر رہا ہوں اس کے علاوہ مجھے تم سے کوئی غرض نہیں، اس غلام نے کہا کہ آپ کون ہو ،،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں علم ہے کہ مکہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ۔اس غلام نے کہا ہاں میں نے سنا ہے کہ ایک شخص جس کا نام محمد ہے اپنے آپ کو اللہ کا نبی کہتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں وہی محمد ہوں ۔
یہ سن کر اس غلام نے کہا کہ اگر آپ ہی وہ نبی ہیں تو مجھے اپنا کلمہ پڑھائیے کیوں اتنا شفیق اور مہربان کوئی نبی ہی ہوسکتا ہے جو غلاموں کا بھی اس قدر خیال رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کلمہ پڑھا کر مسلمان کردیا،
پھر دنیا نے دیکھا کہ اس غلام نے تکلیفیں اور مشقتیں برداشت کی لیکن دامن مصطفیٰ نہ چھوڑا ۔ انہیں جان دینا تو گوارا تھا لیکن اتنے شفیق اور مہربان نبی کا ساتھ چھوڑنا گوارہ نہ تھا.. آج دنیا انہیں بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے نام سے جانتی ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمددری اور محبت نے انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بے لوث غلام بنا کر رہتی دنیا تک مثال بنا دیا ...
اس واقعه سے یه سبق ملا که ھر کام الله کی رضا کے لیے کرتے جائیں- کس سے اجر کی امید نا رکھیں- کیوں که اجر الله کی ذات نے دینا ھے- کچھ لوگ کھتے ھیں که اس نے برا کیا، اس لیے تم بھی اس کا کام نا کرو- نھی نھی... الله کے نبی (درود و سلام) کے اخلاق اپنانے کی کوشش کریں- بے شک اس عظیم ذات کے اخلاق تک پھنچنے کا تصور نھی، مگر کوشش ھم کو بھترین امتی بنا سکتی ھے-
میرے نبی (درود و سلام) جیسا کوئی نھی
آپ (درود و سلام) پر میری، میرے والدین اور میری اولاد کی جان بھی قربان
No comments:
Post a Comment