A to Z islamic images and also world beautiful places photography and also good informations
Saturday, 16 January 2016
Monday, 11 January 2016
سلطان کا انصاف
ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺕ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﻏﺰﻧﻮﯼ ﮐﻮ ﮐﺎﻓﯽ ﮐﻮﺷﺸﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ
ﺟﺐ ﻧﯿﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻏﻼﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﻟﮕﺘﺎ ہے کہ ﮐﺴﯽ مظلوم ﭘﺮ ﺁﺝ ﮐﻮﺋﯽ ﻇﻠﻢ ہوا ہے۔ ﺗﻢ ﻟﻮﮒ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻞ ﺟﺎﺅ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩﯼ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﺍُﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﻟﮯ ﺁﺅ۔
ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺳﺐ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﮐﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ : " ﺳﻠﻄﺎﻥ، ہمیں ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻼ, ﺁﭖ ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﺳﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ۔ "
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﮐﻮ ﺟﺐ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﯿﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮐﭙﮍﮮ ﺑﺪﻝ ﮐﺮ ﺧﻮﺩ ﻣﺤﻞ ﺳﮯ ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮑﻼ۔ ﻣﺤﻞ ﮐﮯ ﭘﭽﮭﻮﺍﮌﮮ ﻣﯿﮟ ﺣﺮﻡ ﺳﺮﺍ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍُنہیں ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﺳﻨﺎﺋﯽ ﺩﯼ : " ﺍﮮ اللہ ! ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﺍﭘﻨﮯ
ﻣﺼﺎﺣﺒﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺤﻞ ﻣﯿﮟ ﻋﯿﺶ ﻭ ﻋﺸﺮﺕ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺍﺭ ﺭہا ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﻞ ﮐﮯ ﻋﻘﺐ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ یہ ﻇﻠﻢ ﺗﻮﮌﺍ ﺟﺎ ﺭہا ہے۔ "
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : "ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮐﺮرہے ہو؟ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻤﻮﺩ ہوﮞ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻓﺮﯾﺎﺩﺭﺳﯽ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺁﯾﺎ ﮬﻮﮞ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﺅ ﮐﯿﺎ ﻇﻠﻢ ﮬﻮﺍ ﮬﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ? "
" ﺁﭖ ﮐﮯ ﺧﻮﺍﺹ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ ہر ﺭﺍﺕ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﺁﺗﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﻮﯼ ﭘﺮ ﻇﻠﻢ ﻭ ﺗﺸﺪّﺩ ﮐﺮﺗﺎ ہے۔ "
"ﺍِﺱ ﻭﻗﺖ ﻭﮦ ﮐﮩﺎﮞ ﮬﮯ?"
" ﺷﺎﯾﺪ ﺍﺏ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﮬﻮ۔"
" ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﻓﻮﺭﺍً ﺁ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻃﻼﻉ ﮐﺮ ﺩﻭ۔ " ﭘﮭﺮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﻣﺤﻞ ﮐﮯ ﺩﺭﺑﺎﻥ ﮐﻮ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ کہ ﺟﺐ بھی یہ دربار ﺁﺋﮯ ﺍﺳﮯ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﻭ۔ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﯽﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮬﻮﮞ ﺗﻮ ﭘﺮﻭﺍﮦ ﻣﺖ ﮐﺮﻭ۔
ﺍﮔﻠﯽ ﺭﺍﺕ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺘﺎﯾﺎ کہ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ہے۔
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺗﻠﻮﺍﺭ ہاتھ ﻣﯿﮟ ﻟﺌﮯ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻞ ﭘﮍﺍ۔ ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ کہ ﮔﮭﺮ کے ﺳﺎﺭﮮ ﭼﺮﺍﻍ ﺑﺠﮭﺎ ﺩﻭ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮬﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺲ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﺎ ﺳﺮ ﺗﻦ ﺳﮯ ﺟﺪﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔
ﭘﮭﺮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ کہ ﭼﺮﺍﻍ ﺭﻭﺷﻦ ﮐﺮ ﺩﻭ۔ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﺠﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﮔﺮ ﭘﮍﺍ۔
ﭘﮭﺮ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ : " ﺍﮔﺮ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﮬﮯ ﺗﻮ ﻟﮯ ﺁﺅ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﺨﺖ ﺑﮭﻮﮎ ﻟﮕﯽ ﮬﮯ۔ "
" ﺁﭖ ﺟﯿﺴﺎ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺠﮫ ﻏﺮﯾﺐ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﺋﮯ ﮔﺎ?"
" ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ہے، ﻟﮯ ﺁﺅ "!
ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﮐﮭﯽ ﺭﻭﭨﯽ ﺍﭨﮭﺎ ﻻﯾﺎ ﺟﺴﮯ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﺑﮍﯼ ﺭﻏﺒﺖ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ کہ ﭼﺮﺍﻏﻮﮞﮐﻮ ﺑﺠﮭﺎنا، ﺳﺠﺪﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﭨﯽ ﻃﻠﺐ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺁﺧﺮ ﮐﯿﺎ
ﻣﺎﺟﺮﺍ ﮬﮯ؟ سلطان نے فرمایا:
"ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﺳﻨﯽ ﺗﻮ ﺳﻮﭼﺎ کہ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﻇﻠﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ہمّت ﺻﺮﻑ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﺴﯽ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ہوﺳﮑﺘﯽ ﮬﮯ۔ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﭘﺪﺭﺍنہ ﺷﻔﻘﺖ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺋﻞ نہ ہوجائے۔ ﭼﺮﺍﻍ ﺟﻠﻨﮯ ﭘﺮ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ کہ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﯿﭩﺎ ﻧﮩﯿﮟ ہے ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺳﺠﺪۂ ﺷُﮑﺮ ﺑﺠﺎﻻﯾﺎ۔ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻣﺎﻧﮕﺎ کہ ﺟﺐ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﺼﯿﺒﺖ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ ہوا، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍللہ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻗﺴﻢ ﮐﮭﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ کہ ﺟﺐ ﺗﮏ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻞ ﺟﺎﺗﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻭﭘﺮ ﺭﻭﭨﯽ ﺣﺮﺍﻡ ہے۔ ﺍُﺱ ﻭﻗﺖ
ﺳﮯ ﺍﺏ ﺗﮏ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ نہ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ نہ پانی ﭘﯿﺎ تھا
ﺟﺐ ﻧﯿﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻏﻼﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﻟﮕﺘﺎ ہے کہ ﮐﺴﯽ مظلوم ﭘﺮ ﺁﺝ ﮐﻮﺋﯽ ﻇﻠﻢ ہوا ہے۔ ﺗﻢ ﻟﻮﮒ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻞ ﺟﺎﺅ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩﯼ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﺍُﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﻟﮯ ﺁﺅ۔
ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺳﺐ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﮐﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ : " ﺳﻠﻄﺎﻥ، ہمیں ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻼ, ﺁﭖ ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﺳﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ۔ "
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﮐﻮ ﺟﺐ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﯿﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮐﭙﮍﮮ ﺑﺪﻝ ﮐﺮ ﺧﻮﺩ ﻣﺤﻞ ﺳﮯ ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮑﻼ۔ ﻣﺤﻞ ﮐﮯ ﭘﭽﮭﻮﺍﮌﮮ ﻣﯿﮟ ﺣﺮﻡ ﺳﺮﺍ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍُنہیں ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﺳﻨﺎﺋﯽ ﺩﯼ : " ﺍﮮ اللہ ! ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﺍﭘﻨﮯ
ﻣﺼﺎﺣﺒﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺤﻞ ﻣﯿﮟ ﻋﯿﺶ ﻭ ﻋﺸﺮﺕ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺍﺭ ﺭہا ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﻞ ﮐﮯ ﻋﻘﺐ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ یہ ﻇﻠﻢ ﺗﻮﮌﺍ ﺟﺎ ﺭہا ہے۔ "
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : "ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮐﺮرہے ہو؟ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻤﻮﺩ ہوﮞ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻓﺮﯾﺎﺩﺭﺳﯽ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺁﯾﺎ ﮬﻮﮞ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﺅ ﮐﯿﺎ ﻇﻠﻢ ﮬﻮﺍ ﮬﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ? "
" ﺁﭖ ﮐﮯ ﺧﻮﺍﺹ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ ہر ﺭﺍﺕ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﺁﺗﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﻮﯼ ﭘﺮ ﻇﻠﻢ ﻭ ﺗﺸﺪّﺩ ﮐﺮﺗﺎ ہے۔ "
"ﺍِﺱ ﻭﻗﺖ ﻭﮦ ﮐﮩﺎﮞ ﮬﮯ?"
" ﺷﺎﯾﺪ ﺍﺏ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﮬﻮ۔"
" ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﻓﻮﺭﺍً ﺁ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻃﻼﻉ ﮐﺮ ﺩﻭ۔ " ﭘﮭﺮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﻣﺤﻞ ﮐﮯ ﺩﺭﺑﺎﻥ ﮐﻮ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ کہ ﺟﺐ بھی یہ دربار ﺁﺋﮯ ﺍﺳﮯ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﻭ۔ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﯽﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮬﻮﮞ ﺗﻮ ﭘﺮﻭﺍﮦ ﻣﺖ ﮐﺮﻭ۔
ﺍﮔﻠﯽ ﺭﺍﺕ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺘﺎﯾﺎ کہ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ہے۔
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺗﻠﻮﺍﺭ ہاتھ ﻣﯿﮟ ﻟﺌﮯ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻞ ﭘﮍﺍ۔ ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ کہ ﮔﮭﺮ کے ﺳﺎﺭﮮ ﭼﺮﺍﻍ ﺑﺠﮭﺎ ﺩﻭ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮬﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺲ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﺎ ﺳﺮ ﺗﻦ ﺳﮯ ﺟﺪﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔
ﭘﮭﺮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ کہ ﭼﺮﺍﻍ ﺭﻭﺷﻦ ﮐﺮ ﺩﻭ۔ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﺠﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﮔﺮ ﭘﮍﺍ۔
ﭘﮭﺮ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ : " ﺍﮔﺮ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﮬﮯ ﺗﻮ ﻟﮯ ﺁﺅ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﺨﺖ ﺑﮭﻮﮎ ﻟﮕﯽ ﮬﮯ۔ "
" ﺁﭖ ﺟﯿﺴﺎ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺠﮫ ﻏﺮﯾﺐ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﺋﮯ ﮔﺎ?"
" ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ہے، ﻟﮯ ﺁﺅ "!
ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﮐﮭﯽ ﺭﻭﭨﯽ ﺍﭨﮭﺎ ﻻﯾﺎ ﺟﺴﮯ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﺑﮍﯼ ﺭﻏﺒﺖ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ کہ ﭼﺮﺍﻏﻮﮞﮐﻮ ﺑﺠﮭﺎنا، ﺳﺠﺪﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﭨﯽ ﻃﻠﺐ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺁﺧﺮ ﮐﯿﺎ
ﻣﺎﺟﺮﺍ ﮬﮯ؟ سلطان نے فرمایا:
"ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﺳﻨﯽ ﺗﻮ ﺳﻮﭼﺎ کہ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﻇﻠﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ہمّت ﺻﺮﻑ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﺴﯽ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ہوﺳﮑﺘﯽ ﮬﮯ۔ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﭘﺪﺭﺍنہ ﺷﻔﻘﺖ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺋﻞ نہ ہوجائے۔ ﭼﺮﺍﻍ ﺟﻠﻨﮯ ﭘﺮ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ کہ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﯿﭩﺎ ﻧﮩﯿﮟ ہے ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺳﺠﺪۂ ﺷُﮑﺮ ﺑﺠﺎﻻﯾﺎ۔ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻣﺎﻧﮕﺎ کہ ﺟﺐ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﺼﯿﺒﺖ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ ہوا، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍللہ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻗﺴﻢ ﮐﮭﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ کہ ﺟﺐ ﺗﮏ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻞ ﺟﺎﺗﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻭﭘﺮ ﺭﻭﭨﯽ ﺣﺮﺍﻡ ہے۔ ﺍُﺱ ﻭﻗﺖ
ﺳﮯ ﺍﺏ ﺗﮏ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ نہ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ نہ پانی ﭘﯿﺎ تھا
Wednesday, 6 January 2016
ﻣﺮﻏﯽ ﮐﮯ ﺍﻧﮉﮮ ﮐﮯ ﭼﭙﭩﮯ ﺳﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺁﮐﺴﯿﺠﻦ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ
ﺑﻠﺒﻠﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺭﮐﮭﺎ ﮬﮯ, ﻣﺮﻏﯽ ﺑﻐﻮﺭ ﺩﯾﮑﮫ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍُﺱ
ﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﺍﻭﭘﺮ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮬﺘﯽ ﮬﮯ۔ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﭼﻮﻧﭻ ﺳﮯ
ﺍﻧﮉﻭﮞ ﮐﻮ ﮐﺮﯾﺪﺗﮯ ﮬﻮﺋﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮬﻮ ﮔﺎ, ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻭﮦ
ﺍﺻﻞ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﯽ ﮐﺎﻡ ﮐﺮ ﺭﮬﯽ ﮬﻮﺗﯽ ﮬﮯ, ﻣﯿﺮﮮ ﺧﺎﻟﻖ ﻧﮯ
ﻣﺮﻏﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺳﺎﺋﻨﺴﺪﺍﻥ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮬﮯ۔
ﭼﻮﺯﮮ ﮐﺎ ﻣﻨﮧ ﺍﻭﭘﺮ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺑﻨﺘﺎ ﮬﮯ, ﺍﮔﺮ ﺗﻮ ﺍﻧﮉﮮ
ﮐﺎﭼﭙﭩﺎ ﺭﺥ ﺍﻭﭘﺮ ﺭﮬﮯ ﺗﻮ ﺑﭽﮯ ﮐﺎ ﻣﻨﮧ ﭨﮭﯿﮏ ﺍﺱ ﺑﻠﺒﻠﮯ
ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ,ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻣﮩﻠﺖ ﮬﻮﺗﯽ ﮬﮯ
ﮐﮧ ﻭﮦ ﺁﮐﺴﯿﺠﻦ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺑﻠﺒﻠﮯ ﮐﮯ ﺧﺘﻢ ﮬﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ
ﭘﮩﻠﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﻮﻝ ﮐﻮ ﺗﻮﮌ ﮐﺮ ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮑﻠﮯ۔ ﺑﺎﮬﺮ ﺁﮐﺴﯿﺠﻦ ﮐﺎ
ﺳﻤﻨﺪﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮬﮯ, ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺑﻠﺒﻠﮯ
ﮐﻮ ﮬﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮ ﻟﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﻝ ﮐﻮ
ﻧﮧ ﺗﻮﮌﮮ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﻧﺪﺭ ﮬﯽ ﻣﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ۔ ﺑﻌﺾ ﺩﻓﻌﮧ ﺑﭽﮧ
ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﺟﺐ ﺑﻮﻟﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﮯ ﺗﻮ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﮬﺮ ﺳﮯ
ﭼﻮﻧﭻ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﺧﻮﻝ ﮐﻮ ﺗﻮﮌ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ, ﻣﮕﺮ ﭘﮑﺎﺭ ﺿﺮﻭﺭﯼ
ﮬﮯ۔
ﺟﻮ ﺑﻨﺪﮮ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺧﺘﻢ ﮬﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﻥ
ﺧﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﺮﻓﺖ ﺳﮯ ﺁﺯﺍﺩ ﮬﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﺍﺋﻤﯽ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﻞ ﺟﺎﺗﯽ ﮬﮯ۔ ﺟﻮ ﻣﺨﻠﺺ ﺍﻭﺭ ﺻﺎﺩﻕ ﺍﻟﻄﻠﺐ
ﮬﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ, ﺍﻭﺭ ﮔﮍﮔﮍﺍ ﮐﺮ ﺭﺏ ﮐﻮ ﭘﮑﺎﺭﺗﮯ ﮬﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﻥ
ﺧﻮﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﺠﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﻓﺮﻣﺎﺗﺎ ﮬﮯ۔
ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : " ﺟﻮ ﮬﻤﺎﺭﯼ ﻃﻠﺐ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﻘّﺖ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮﺗﮯ
ﮬﯿﮟ ﮬﻢ ﯾﻘﯿﻨﺎً ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﺍﮦ ﺳﺠﮭﺎﺗﮯ ﮬﯿﮟ۔ " ﺧﻮﻟﻮﮞ
ﮐﯽ ﮔﺮﻓﺖ ﺳﮯ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﯾﮧ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺗﻘﺎﺿﮯ
ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﭘﻮﺭﮮ ﮐﺮﮮ۔
ﺳﻮﺭﮦ ﺍﻟﻤﺆﻣﻨﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : "ﺟﺲ ﺩﻥ ﺻﻮﺭ
ﭘﮭﻮﻧﮑﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ,ﺍﺱ ﺩﻥ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻧﺴﺐ ﮐﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﺭﺷﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﻮﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ
ﭘﻮﭼﮭﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﮐﺲ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺲ ﻗﻮﻡ ﺳﮯ
ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮬﻮ۔ "
ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ : " ﺁﺝ ﺗﻢ ﮬﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﺍﮐﯿﻠﮯ ﮬﯽ
ﺁﺋﮯ ﮬﻮ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﮬﻢ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﮐﯿﻼ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ
ﺟﻮ ﺧﻮﻝ ﮬﻢ ﻧﮯ ﺗﻢ ﭘﺮ ﭼﮍﮬﺎﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﺳﺐ ﭘﯿﭽﮭﮯ
ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﮯ ﮬﻮ۔ "
ﻣﮕﺮ ﮐﺎﺵ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﻥ ﺧﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺳﮯ ﻭﻗﺖ ﭘﺮ
ﺁﮔﺎﮦ ﮬﻮ ﺟﺎﺋﮯ
Monday, 4 January 2016
Hazrat salim (R)
مدینہ کا بازار تھا ، گرمی کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ لوگ نڈھال ہورہے تھے۔ایک تاجراپنے ساتھ ایک غلام کولیے پریشان کھڑا تھا۔غلام جوابھی بچہ ہی تھا وہ بھی دھوپ میں کھڑا پسینہ پسینہ ہورہا تھا۔ تاجر کاسارا مال اچھے داموں بک گیا تھا بس یہ غلام ہی باقی تھا جسے خریدنے میں کوئی بھی دلچسپی نہیں رکھا رہاتھا۔تاجر سوچ رہا تھا کہ اس غلام کو خرید کرشایداس لے گھاٹے کاسوداکیا ہے۔اس نے توسوچا تھا کہ اچھا منافع ملے گا لیکن یہاں تو اصل لاگت ملنا بھی دشوار ہورہا تھا۔اس نے سوچ لیا تھا کہ اب اگریہ غلا پوری قیمت پر بھی بکاتووہ اسے فوراََ بیچ دے گا۔
مدینہ کی ایک لڑکی کی اس غلام پر نظر پڑی تو اس نے تاجر سے پوچھا کہ یہ غلام کتنے کا بیچو گے۔ تاجر نے کہاکہ میں نے اتنے میں لیا ہے اور اتنے کاہی دے دوں گا۔اس لڑکی نے بچے پر ترس کھاتے ہوئے اسے خرید لیا۔تاجر نے بھی خداکاشکر ادا کیا اور واپسی کے راہ لی۔
مکہ سے ابوحذیفہ مدینہ آئے تو انہیں بھی اس لڑکی کاقصہ معلوم ہوا۔لڑکی کی رحم دلی سے متاثر ہوکر انہوں نے اسکے لیے نکاح کا پیغام بھیجا جوقبول کرلیا گیا۔یوں واپسی پر وہ لڑکی جس کانام ثہیتہ بخت بعارتھا انکی بیوی بن کر انکے ہمراہ تھی اور وہ غلام بھی مالکن کے ساتھ مکہ پہنچ گیا۔
ابوحذیفہ مکہ آکر اپنے پرانے دوست عثمان رضی اللہ عنہ ابن عفان سے ملے تو انہیں کچھ بدلا ہواپایا اور اگلے رویت میں سردمہری محسوس کی۔انہوں نے اپنے دوست سے استفسار کیا کہ عثمان یہ سرد مہری کیوں !!۔تو عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان نے جواب دیاکہ میں نے اسلام قبول کرلیاہے اور تم ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے توا ب ہماری دوستی کیسے چل سکتی ہے ۔
ابوحذیفہ نے کہا تو پھر مجھے بھی محمد ﷺ کے پاس لے چلو اور اس اسلام میں داخل کردو جسے تم قبول کرچکے ہو،چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں نبی کریم ﷺکی خدمت میں پیش کیااور وہ کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے ۔پھر آکرانہوں نے اپنی بیوی اور غلام کو اپنے مسلمان ہونے کا بتایا تو ان دونوں نے بھی کلمہ پڑھ لیا۔
حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس غلام سے کہا کہ چونکہ تم بھی مسلمان ہوگئے ہواس لیے میں اب تمہیں غلام نہیں رکھ سکتا لہٰذا میری طرف سے اب تم آزاد ہو۔غلام نے کہا آقا میرااب اس دنیا میں آپ دونوں کے سواکوئی نہیں۔آپ نے مجھے آزاد کردیا تو میں کہاں جاؤں گا۔حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس غلام کو اپنا بیٹا بنالیا اور اپنے پاس ہی رکھ لیا۔غلام نے قرآن پاک سیکھنا شروع کردیا اور کچھ ہی دنوں میں بہت ساقرآن یادکرلیا۔اور وہ جب قرآن پڑھتے تو بہت خوبصورت لہجے میں پڑھتے۔
ہجرت کے وقت نبی کریم ﷺ سے پہلے جن صحابہ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ اور انکایہ لے پالک بیٹا بھی تھا۔مدینہ پہنچ کر جب نماز کے لیے امام مقرر کرنے کاوقت آیاتو اس غلام کو خوبصورت تلاوت اور سب سے زیادہ قران حفظ ہونے کی وجہ سے انہیں امام چن لیاگیا۔اور انکی امامت میں حجرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی بھی نماز ادا کرتے تھے ۔مدینہ کے یہودیوں نے جب انہیں امامت کرواتے دیکھا تو حیران ہوگئے کہ یہ وہی غلام ہے جسے کوئی خریدنے کے لیے تیار نہ تھا۔آج دیکھو کتنی عزت ملی کہ مسلمانوں کا امام بنا ہواہے۔
اللہ پاک نے انہیں خوش گلواس قدربنایا تھا کہ جب آیات قرآنی تلاوت فرماتے تولوگوں پرایک محویت طاری ہوجاتی اور راہ گیرٹھٹک کرسننے لگتے۔ایک دفعہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ ﷺکے پاس حاضر ہونے میں دیر ہوئی۔آپ ﷺ نے توبولیں کہ ایک قاری تلاوت کررہا تھا اسکے سننے میں دیر ہوگئی اور خوش الحانی کی اس قدر تعریف کی کہ آنحضرت ﷺ خود چادر سنبھالے ہوئے باہر تشریف لے آئے۔دیکھا تو وہ بیٹھے تلاوت کررہے ہیں ۔آپ ﷺ نے خوش ہوکر فرمایا : اللہ پاک کاشکر ہے کہ اس نے تمہارے جیسے شخص کو میری امت میں بنایا۔
یہ خوش قسمت صحابی حضرت سالم رضی اللہ عنہ تھے۔انہوں نے جنگ موتہ میں جام شہادت نوش کیا۔اللہ کی کروڑہارحمتیں ہوں ان پر۔
مدینہ کی ایک لڑکی کی اس غلام پر نظر پڑی تو اس نے تاجر سے پوچھا کہ یہ غلام کتنے کا بیچو گے۔ تاجر نے کہاکہ میں نے اتنے میں لیا ہے اور اتنے کاہی دے دوں گا۔اس لڑکی نے بچے پر ترس کھاتے ہوئے اسے خرید لیا۔تاجر نے بھی خداکاشکر ادا کیا اور واپسی کے راہ لی۔
مکہ سے ابوحذیفہ مدینہ آئے تو انہیں بھی اس لڑکی کاقصہ معلوم ہوا۔لڑکی کی رحم دلی سے متاثر ہوکر انہوں نے اسکے لیے نکاح کا پیغام بھیجا جوقبول کرلیا گیا۔یوں واپسی پر وہ لڑکی جس کانام ثہیتہ بخت بعارتھا انکی بیوی بن کر انکے ہمراہ تھی اور وہ غلام بھی مالکن کے ساتھ مکہ پہنچ گیا۔
ابوحذیفہ مکہ آکر اپنے پرانے دوست عثمان رضی اللہ عنہ ابن عفان سے ملے تو انہیں کچھ بدلا ہواپایا اور اگلے رویت میں سردمہری محسوس کی۔انہوں نے اپنے دوست سے استفسار کیا کہ عثمان یہ سرد مہری کیوں !!۔تو عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان نے جواب دیاکہ میں نے اسلام قبول کرلیاہے اور تم ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے توا ب ہماری دوستی کیسے چل سکتی ہے ۔
ابوحذیفہ نے کہا تو پھر مجھے بھی محمد ﷺ کے پاس لے چلو اور اس اسلام میں داخل کردو جسے تم قبول کرچکے ہو،چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں نبی کریم ﷺکی خدمت میں پیش کیااور وہ کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے ۔پھر آکرانہوں نے اپنی بیوی اور غلام کو اپنے مسلمان ہونے کا بتایا تو ان دونوں نے بھی کلمہ پڑھ لیا۔
حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس غلام سے کہا کہ چونکہ تم بھی مسلمان ہوگئے ہواس لیے میں اب تمہیں غلام نہیں رکھ سکتا لہٰذا میری طرف سے اب تم آزاد ہو۔غلام نے کہا آقا میرااب اس دنیا میں آپ دونوں کے سواکوئی نہیں۔آپ نے مجھے آزاد کردیا تو میں کہاں جاؤں گا۔حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس غلام کو اپنا بیٹا بنالیا اور اپنے پاس ہی رکھ لیا۔غلام نے قرآن پاک سیکھنا شروع کردیا اور کچھ ہی دنوں میں بہت ساقرآن یادکرلیا۔اور وہ جب قرآن پڑھتے تو بہت خوبصورت لہجے میں پڑھتے۔
ہجرت کے وقت نبی کریم ﷺ سے پہلے جن صحابہ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ اور انکایہ لے پالک بیٹا بھی تھا۔مدینہ پہنچ کر جب نماز کے لیے امام مقرر کرنے کاوقت آیاتو اس غلام کو خوبصورت تلاوت اور سب سے زیادہ قران حفظ ہونے کی وجہ سے انہیں امام چن لیاگیا۔اور انکی امامت میں حجرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی بھی نماز ادا کرتے تھے ۔مدینہ کے یہودیوں نے جب انہیں امامت کرواتے دیکھا تو حیران ہوگئے کہ یہ وہی غلام ہے جسے کوئی خریدنے کے لیے تیار نہ تھا۔آج دیکھو کتنی عزت ملی کہ مسلمانوں کا امام بنا ہواہے۔
اللہ پاک نے انہیں خوش گلواس قدربنایا تھا کہ جب آیات قرآنی تلاوت فرماتے تولوگوں پرایک محویت طاری ہوجاتی اور راہ گیرٹھٹک کرسننے لگتے۔ایک دفعہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ ﷺکے پاس حاضر ہونے میں دیر ہوئی۔آپ ﷺ نے توبولیں کہ ایک قاری تلاوت کررہا تھا اسکے سننے میں دیر ہوگئی اور خوش الحانی کی اس قدر تعریف کی کہ آنحضرت ﷺ خود چادر سنبھالے ہوئے باہر تشریف لے آئے۔دیکھا تو وہ بیٹھے تلاوت کررہے ہیں ۔آپ ﷺ نے خوش ہوکر فرمایا : اللہ پاک کاشکر ہے کہ اس نے تمہارے جیسے شخص کو میری امت میں بنایا۔
یہ خوش قسمت صحابی حضرت سالم رضی اللہ عنہ تھے۔انہوں نے جنگ موتہ میں جام شہادت نوش کیا۔اللہ کی کروڑہارحمتیں ہوں ان پر۔
Hazrat zainab (R)
عاشق حسین صدیقی
قرآن وحدیث کے مطابق حضور پرنور،سرورعالم،خاتم النبیین جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفی کے جملہ قرایت واروں،خاندان ،جوہاشم باالخصوص اہل بیت کرام کی محبت اور ان کاادب واحترام ایمان ہے جس کے دل میں اہل بیت رسول کی محبت نہیں اس کی ایمان کی شمع بجھی ہوئی ہے اور وہ منافقت کے اندھیروں میں بھٹک رہاہے۔صدہاایسی صحیح احادیث موجود ہیں جس میں اہل بیعت رسولﷺ سے محبت کرنے اور ان کاادب ملحوظ خاطر رکھنے کاحکم دیاگیاہے۔بے شک اہل بیعت رسول کی محبت ہمارا ایمان ہے لیکن یہ حضورﷺ کی رسالت کااجرنہیں بلکہ یہ شجرایمان کاثمر ہے جہاں ایمان ہوگاوہاں جب آل رسولﷺ ضرور ہوگی۔
اہل بیعت رسول اسلام کے ستون اور شریعت کی پابندی کے ذریعے ہیں۔ان کی برکت سے دنیا میں توحید اور حق کی بنیاد نئے سرے سے قائم ہوئی اور شرک وباطل اپنی جگہ سے ہلے۔جملہ اہل بیعت رسول ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چمکتے ہوئے نگینے ہیں۔ان میں ایک نگینہ حضور نبی کریم ﷺ کی نواسی امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ اورسیدہ النساء حضرت فاطمة الزھرہ رضی اللہ عنہا کی بڑی صاحبزادی اور تاریخ اسلام کی محترم شخصیت حضرت بی بی زینب رضی اللہ عنہا ہیں۔
آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت5جمادی الاول5ہجری میں مدینہ شریف میں ہوئی۔ولادت کے وقت رسول کریمﷺ مدینہ شریف سے باہر کسی سفرپر تھے۔ولادت کے تیسرے دن رسول کریمﷺ مدینہ شریف واپس آئے اور جب عادت سب سے پہلے اپنی پیاری صاحبزادی حضرت فاطمةالزھرہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے۔نومولودبچی کوسینے سے لگاکرپیار کیا،آپﷺ بہت خوش ہوئے آپ کانام زینب رضی اللہ عنہا رکھا۔زین کا مطلب زینت یاباپ کازیور۔اس موقع پر آپﷺنے ارشاد فرمایا کہ میری خواہش ہے کہ جویہاں موجود ہیں اور جو یہاں موجود نہیں ہیں اس بچی کااحترام کریں کیونکہ اس بچی کی شکل وصورت اپنی نانی حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا سے ملتی ہے۔انہیں عقیلہ بنو ہاشم کہاجاتا تھا۔ام کلثوم اورام الحسن آپ کنیت تھی۔ولادت کے ساتویں دن رسول کریمﷺ آپ رضی اللہ عنہ کاعقیقہ فرمایا۔آپ ابھی چھ سات برس کی تھیں کہ والدہ محترمہ حضرت فاطمةالزھرا رضی اللہ عنہا وصال فرماگئیں۔اس کے بعد آپ کوحضرت ام البنین رضی اللہ عنہ اور حضرت اسماء جیسی بلندپایہ خواتین کے ساتھ رہنے کااتفاق ہوا۔
سید الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ آپ کی بڑی تعظیم فرماتے جب وہ آتیں تو آپ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوجاتے اور اپنی جگی پر بٹھاتے۔بڑی صاحبزادی ہونے کہ بناء پر گھر کے تمام معاملات کی ذمہ داری آپ کے سپرد تھی۔رسول کریمﷺ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دینی تربیت حاصل کی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں کوفہ کے اہم گھرانوں کی خواتین نے اپنے خاوندوں کے ذریعے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ وہ حضرت بی بی زینب سے دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں۔اپنے والد حضرت علی کے حکم سے آپ رضی اللہ عنہ نے کوفہ کی خواتین کودرس دیتیں اور قرآن پاک کی تفسیر پڑھاتیں۔
حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کی پھوپھی جان حضرت بی بی زینب رضی اللہ عنہا اپنی پوری زندگی عبادت وریاضت میں بسرکی۔آپ رضی اللہ عنہ کی دینی وعلمی بصیرت اور غیر معمولی ذہانت کی بدولت آپ کو عقیلہ بنوہاشم کے لقب سے یادکیاجاتاتھا۔17ویں ہجری میں آپ کی شادی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بڑے بھائی اور رسول کریمﷺ کے چچیرے بھائی حضرت جعفر طیار بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کے فرزند حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوئی۔حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ ہجرت حبشہ کے دوران پیداہوئے تھے۔حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ عرب کے مشہور جواود کریم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جانثار تھے۔
حضرے بی بی زینب رضی اللہ عنہا کی حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے جو اولادہوئی دن کے نام علی، عون،اکبر،عباس،ام کلثوم،جعفر اکبرمحمد ہیں۔عون ومحمد61ہجری میں امام عالی مقام حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ میدان کربلاء میں شہید ہوئے۔میدان کربلا میں حضرت بی بی زنیب رضی اللہ عنہا کاکردار عظمت کی بلندیوں پرنظرآتا ہے سانحہ کربلاء کے بعد آپ نے نہایت صبراور شجاعت ست اہل بیعت کی خواتین اور بچوں کی حفاظت فرمائی۔ان کاحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ سے مدینہ اور وہاں سے کربلا تک کاسفر ایک غیرمعمولی کارنامہ ہے۔
10محرم61ہجری کی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد یتیموں بیواؤں بچوں،جوانوں،عورتوں اور مردوں کی نگرانی،دشمنوں کے مقابلے میں صبروتحمل کامظاہرہ لٹے ہوئے قافلے کاقید ہونا،کوفہ میں ان کی الاجواب تقریریں ،عبداللہ بن زیاد کی گستاخیوں کا جواب۔ اس کے بعد شام کاسفر،شام کے بازاروں اور یزید کے دربار میں اپنی حفانیت اور واقعات کربلا کااعلان فصیح وبلیغ خطبے اور برحستہ جوابات ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خطبہ دے رہے ہوں۔ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کوابن زیادکے بے رحم ہاتھوں سے بچاتا بھی ان کااہم کارنامہ ہے۔ومشق میں اہل بیت کے ساتھ قیدرہیں۔ومشق سے رہاہوکر مدینہ تشریف لائیں اور واقعات کربلا کومئوثرانداز میں بیان فرمایا۔پھر آپ کومدینہ میں بھی آپ کوچین سے نہ رہنے دیا گیا اور مصر ہجرت پر مجبور کردیا گیا۔وہاں سے آپ کو ایک بار پھر گرفتار کرکے شام لایا گیا۔دمشق میں ایک بدبخت شامی نے حملہ کرکے آپ کوشہید کردیا۔آپ رضی اللہ عنہ کے خاوند حضرت عبداللہ بن جعفر ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے وہیں زمین خرید کرآپ کو دفن فرمادیا۔ آپ کامزار مبارک تمام دنیا کے مسلمانوں کیلئے عقیدت واحترام کامقام ہے
قرآن وحدیث کے مطابق حضور پرنور،سرورعالم،خاتم النبیین جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفی کے جملہ قرایت واروں،خاندان ،جوہاشم باالخصوص اہل بیت کرام کی محبت اور ان کاادب واحترام ایمان ہے جس کے دل میں اہل بیت رسول کی محبت نہیں اس کی ایمان کی شمع بجھی ہوئی ہے اور وہ منافقت کے اندھیروں میں بھٹک رہاہے۔صدہاایسی صحیح احادیث موجود ہیں جس میں اہل بیعت رسولﷺ سے محبت کرنے اور ان کاادب ملحوظ خاطر رکھنے کاحکم دیاگیاہے۔بے شک اہل بیعت رسول کی محبت ہمارا ایمان ہے لیکن یہ حضورﷺ کی رسالت کااجرنہیں بلکہ یہ شجرایمان کاثمر ہے جہاں ایمان ہوگاوہاں جب آل رسولﷺ ضرور ہوگی۔
اہل بیعت رسول اسلام کے ستون اور شریعت کی پابندی کے ذریعے ہیں۔ان کی برکت سے دنیا میں توحید اور حق کی بنیاد نئے سرے سے قائم ہوئی اور شرک وباطل اپنی جگہ سے ہلے۔جملہ اہل بیعت رسول ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چمکتے ہوئے نگینے ہیں۔ان میں ایک نگینہ حضور نبی کریم ﷺ کی نواسی امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ اورسیدہ النساء حضرت فاطمة الزھرہ رضی اللہ عنہا کی بڑی صاحبزادی اور تاریخ اسلام کی محترم شخصیت حضرت بی بی زینب رضی اللہ عنہا ہیں۔
آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت5جمادی الاول5ہجری میں مدینہ شریف میں ہوئی۔ولادت کے وقت رسول کریمﷺ مدینہ شریف سے باہر کسی سفرپر تھے۔ولادت کے تیسرے دن رسول کریمﷺ مدینہ شریف واپس آئے اور جب عادت سب سے پہلے اپنی پیاری صاحبزادی حضرت فاطمةالزھرہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے۔نومولودبچی کوسینے سے لگاکرپیار کیا،آپﷺ بہت خوش ہوئے آپ کانام زینب رضی اللہ عنہا رکھا۔زین کا مطلب زینت یاباپ کازیور۔اس موقع پر آپﷺنے ارشاد فرمایا کہ میری خواہش ہے کہ جویہاں موجود ہیں اور جو یہاں موجود نہیں ہیں اس بچی کااحترام کریں کیونکہ اس بچی کی شکل وصورت اپنی نانی حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا سے ملتی ہے۔انہیں عقیلہ بنو ہاشم کہاجاتا تھا۔ام کلثوم اورام الحسن آپ کنیت تھی۔ولادت کے ساتویں دن رسول کریمﷺ آپ رضی اللہ عنہ کاعقیقہ فرمایا۔آپ ابھی چھ سات برس کی تھیں کہ والدہ محترمہ حضرت فاطمةالزھرا رضی اللہ عنہا وصال فرماگئیں۔اس کے بعد آپ کوحضرت ام البنین رضی اللہ عنہ اور حضرت اسماء جیسی بلندپایہ خواتین کے ساتھ رہنے کااتفاق ہوا۔
سید الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ آپ کی بڑی تعظیم فرماتے جب وہ آتیں تو آپ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوجاتے اور اپنی جگی پر بٹھاتے۔بڑی صاحبزادی ہونے کہ بناء پر گھر کے تمام معاملات کی ذمہ داری آپ کے سپرد تھی۔رسول کریمﷺ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دینی تربیت حاصل کی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں کوفہ کے اہم گھرانوں کی خواتین نے اپنے خاوندوں کے ذریعے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ وہ حضرت بی بی زینب سے دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں۔اپنے والد حضرت علی کے حکم سے آپ رضی اللہ عنہ نے کوفہ کی خواتین کودرس دیتیں اور قرآن پاک کی تفسیر پڑھاتیں۔
حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کی پھوپھی جان حضرت بی بی زینب رضی اللہ عنہا اپنی پوری زندگی عبادت وریاضت میں بسرکی۔آپ رضی اللہ عنہ کی دینی وعلمی بصیرت اور غیر معمولی ذہانت کی بدولت آپ کو عقیلہ بنوہاشم کے لقب سے یادکیاجاتاتھا۔17ویں ہجری میں آپ کی شادی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بڑے بھائی اور رسول کریمﷺ کے چچیرے بھائی حضرت جعفر طیار بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کے فرزند حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوئی۔حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ ہجرت حبشہ کے دوران پیداہوئے تھے۔حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ عرب کے مشہور جواود کریم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جانثار تھے۔
حضرے بی بی زینب رضی اللہ عنہا کی حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے جو اولادہوئی دن کے نام علی، عون،اکبر،عباس،ام کلثوم،جعفر اکبرمحمد ہیں۔عون ومحمد61ہجری میں امام عالی مقام حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ میدان کربلاء میں شہید ہوئے۔میدان کربلا میں حضرت بی بی زنیب رضی اللہ عنہا کاکردار عظمت کی بلندیوں پرنظرآتا ہے سانحہ کربلاء کے بعد آپ نے نہایت صبراور شجاعت ست اہل بیعت کی خواتین اور بچوں کی حفاظت فرمائی۔ان کاحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ سے مدینہ اور وہاں سے کربلا تک کاسفر ایک غیرمعمولی کارنامہ ہے۔
10محرم61ہجری کی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد یتیموں بیواؤں بچوں،جوانوں،عورتوں اور مردوں کی نگرانی،دشمنوں کے مقابلے میں صبروتحمل کامظاہرہ لٹے ہوئے قافلے کاقید ہونا،کوفہ میں ان کی الاجواب تقریریں ،عبداللہ بن زیاد کی گستاخیوں کا جواب۔ اس کے بعد شام کاسفر،شام کے بازاروں اور یزید کے دربار میں اپنی حفانیت اور واقعات کربلا کااعلان فصیح وبلیغ خطبے اور برحستہ جوابات ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خطبہ دے رہے ہوں۔ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کوابن زیادکے بے رحم ہاتھوں سے بچاتا بھی ان کااہم کارنامہ ہے۔ومشق میں اہل بیت کے ساتھ قیدرہیں۔ومشق سے رہاہوکر مدینہ تشریف لائیں اور واقعات کربلا کومئوثرانداز میں بیان فرمایا۔پھر آپ کومدینہ میں بھی آپ کوچین سے نہ رہنے دیا گیا اور مصر ہجرت پر مجبور کردیا گیا۔وہاں سے آپ کو ایک بار پھر گرفتار کرکے شام لایا گیا۔دمشق میں ایک بدبخت شامی نے حملہ کرکے آپ کوشہید کردیا۔آپ رضی اللہ عنہ کے خاوند حضرت عبداللہ بن جعفر ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے وہیں زمین خرید کرآپ کو دفن فرمادیا۔ آپ کامزار مبارک تمام دنیا کے مسلمانوں کیلئے عقیدت واحترام کامقام ہے
Sunday, 3 January 2016
Ya Gareeb Nawaaz
Khwaja moinuddin chisti history was born in 1142 CE on sistan which is located in Afghanistan, khuwaja moin-uddin chisty belonged from syed families, he lost his parents in the age o 15th, when he was a child that time he was different from other people, he spent his time prayers, khuwaja moin-uddin histai play an important role to spread the Islam in Hindustan (subcontinent). He died in 1236 CE, and his shrine is present in Ajmer, India. In this Page you will find and read of Khwaja Moinuddin Chisti biography in urdu hindi and roman.
Khwaja Moinuddin Chisti(Biography) |
Khuwaja moin-uddin chisti ka shumar islam ke sab se awal’lin mubaligin me hota hai jinho ne Hindustan ke awam per gehra naqosh subat kiye. In ke hath per bet ker ke hindu ki ek bari tadad ne islam qabool kiya. 36 ajmer ke atraf-o-ankaf me rahnay wlay taqreban tamam hindu ap ke aqedat-mand ban gae. Islam ki asha’at me ap ne giran baha khidmat anjam diye is ka sabot is bat se milta hai kea j bhi hazaron lakhon ki tadad me sab hi mazhab ke pero ka rap ke urs me sharik hotay hain. is azeem dargah me apna sar jhukatay hain aur sajhdah nasheen hazrat ki khidmat me bohat bari miqdar me chanda paish kertay hain aur roza mubarak ki tamerat-o-tarmimat wahairah me hissa letay hain
Bar-E-Sageer Me Chishtiyan Silsilay Ka Qayam
Chishtiyan silsilay ke bani khuwaja ishaq shami thay. Wafat 940 is silsila ko bar-e-sageer khuwaja moin uddin chisti ne mutaruf kerwaya (38) aur ap ne bar-e-saeer me pehlay sufi silsilay ki dag bel dali isi liye ap ko Hindustan ke wali/ sufike nam se yaad kiya jata hai. (39) ap ne chand hi arsay me hidustan ke taweel-o-arz me bari tadad me khan-ka hain qaim kein khas tor per dordaraz aur wiran jagahon me in ki mojodgi ek azeem kar-nama nazar ata hai. In khan-ka’hon me aap ke muqledin maraqba kertay thay aur ap ki ba-barkat zaat se rohani faizan hasil kertay thay. Ye khan-ka’hein tasuf ke mushtaq logon ke liye misali fiza farhaam kerti thi.
Ap Ke Nam-War Shagird Aur Muridin
Khuwaja moin-uddin chisti ne apnay mazhabi doray ke doran kai namwar shagird aur dosray sufiyan akram pe gehray asrat muratab kiye. In ki amli tarbiyat ki aur batini aur rohani faizan se mustafid honay ka moqa diya. In me qabil-e-zikr hazrat ka naam sheikh hamid-uddin na-gawari, sheikh qutub-uddin bakhtiyar ka ki (jin ke naam qutub-uddinaebak ne qutub minar dehli tamer kerwaya) (40) aur sheikh kabir baba fareed ganj sukar hain. baba fareed ne asha’at-e-islam me numaya aur giran baha khidmat anjam diye khas tor per inho ne chistiya silsilay ki shakein qaim ker ke farog islam me bhar-pur hissa liya in shakho me nizami aur sabiri shakhein sar-e-fehrist hai
Khuwaja Ajmeri Ki Islami Khidmat
Saturday, 2 January 2016
Subscribe to:
Posts (Atom)